حاکم علی زرداری ایک کامیاب اور زیرک انسان تھے۔ سیاسی وابستگیوں سے قطع نظر کاروباری طور پر بڑے اپ رائٹ تھے۔ پہلی بار فلم ڈسٹری بیوٹر ستیش آنند کے ساتھ بمبینو سینما کی بلڈنگ میں واقع ان کے دفتر میں ملاقات ہوئی یہ شاید 1980ء کی بات ہو گی گفتگو میں جہاں فلمی صنعت کے نشیب و فراز اور فلم ڈسٹری بیوشن کے مختلف ٹیکنیکی پہلوئوں کی مشکلات اور نئے امکانات زیر بحث تھے وہاں زرداری صاحب نے محبت کرنے والے ایک شفیق باپ کی طرح اپنے بچوں کابھی ذکر کیا ایک بلوچ کی طرح مجھے ان کا لہجہ مستحکم اور گفتگو کا انداز دو ٹوک دکھائی دیا۔ مجھے یاد ہے کہ یہ ضیاء الحق کا دور تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا۔ستیش آنند چونکہ بھٹو صاحب کے مداح تھے اور ان سے تعلق داری رکھتے تھے ممتاز قانون دان اور پاکستان کے آئین کے خالق عبدالحفیظ پیرزادہ سے بڑی محبتوں کے روابط تھے اس لئے جب بھٹو صاحب کا ذکر آیا تو ان کے لہجے میں درد بھی تھا اور انداز میں مایوسی بھی۔زرداری صاحب کا اپنا نقطہ نظر تھا ڈیڑھ گھنٹے جاری رہنے والی اس محفل میں زرداری صاحب کی ڈھیروں باتیں سن کر ان کی شخصیت کا احاطہ کچھ اس طرح کر سکا کہ وہ ایک کھرے انسان اور لگی لپٹی رکھنے کے قائل نہیں۔لیکن اس وقت مجھ سمیت کسی کی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اپنے جس بیٹے آصف بلوچ کا وہ تذکرہ کر رہے تھے اور شاید ان کے کاروبار میں ہمرکاب واحد اولاد نرینہ تھا۔ وہ محض آٹھ سال بعد پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور ملکی سیاست کے سب سے متحرک اور بااثر بھٹو خاندان کا دامادد بن جائے گا اپنی خود نوشت ’’دختر مشرق‘‘ میں بے نظیر بھٹو نے تفصیل سے آصف علی زرداری کی ان خوبیوں کا تذکرہ کیا ہے جن کے سبب وہ ان سے متاثر ہوئیں لیکن شادی کی یہ خبر عمومی طور پر حیرانگی سے سنی گئی۔ بھٹو خاندان 1958ء سے خبروں میں رہا ہے ایسے نشیب و فراز سے گزرا کہ کبھی لوگ اس سے وابستگی کا اعلانیہ اظہار کرتے رہے اور کبھی راستہ بدل کر گزر جاتے رہے ہیں۔یہ تاریخی تقریب اور خوشی کے یہ لمحات اذیتوں ابتلائوں اور مشکلات سے بھر پور دس سالوں بعد نصیب ہو رہے تھے۔ آصف زرداری کی زندگی کا دوسرا حصہ ان کی محترمہ بے نظیر سے شادی کے بعد شروع ہوا سندھ کے معروف زرداری خاندان نے شادی سے دو سال پہلے یعنی 1986ء میں بھٹو خاندان سے بے نظیر کا ہاتھ مانگا تھا اس وقت بے نظیر نے یہ کہہ کر اپنی والدہ سے وقت مانگا کہ ’’ابھی میں سب سے پہلے پارٹی کو منظم کر لوں‘‘ اس خبر کو صیغہ راز ہی رکھا گیا تھا اس عرصے میں لڑکے کے بارے میں انکوائری ہوتی رہی۔ انکوائری کرنے والوں میں فخری بیگم اور بے نظیر کی کچھ کلاس فیلوز شامل تھیں۔1987ء میں بے نظیر وعدے کے مطابق لندن جا پہنچیں اور انہوں نے اس فیصلے کو اپنی والدہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا۔ اس وقت آصف علی زرداری اپنی سوتیلی ماں کے ساتھ لندن میں موجود تھے۔ حاکم علی زرداری کی یہ بیگم، نصرت بھٹو اور بیگم منور الاسلام کی قریبی دوست تھیں اس رشتے کی پختگی میں سب سے زیادہ انہی کا ہاتھ تھا ۔کراچی میں منعقد ہونے والی اس تقریب میں مدتوں بعد بھٹو خاندان کے بکھرے ہوئے افراد یکجا ہوئے مہندی کی رسم 70کلفٹن میں ہوئی نکاح کے بعد ایک استقبالیہ 70کلفٹن سے چند قدم پر ایرانی قونصل خانے سے ملحقہ کلفٹن گارڈن میں اور رنگا رنگ عوامی تقریب ککری گرائونڈ لیاری میں ہوئی۔17اگست 1988ء کو پاکستانی سیاست کا پورا منظر اس وقت بدلا جب جنرل ضیاء الحق ایک فضائی حادثے میں دنیا سے چل بسے۔یہاں سے حالات نے کروٹ بدلی ۔ضیاء الحق کے منظر سے اوجھل ہونے کے چند ماہ بعد بے نظیر ملک کی وزیر اعظم بن گئیں اور آصف زرداری مرد اول کہلائے۔ 1988میں بے نظیر بھٹو کے برسراقتدار آنے کے محض ایک سال بعد ضیاء الحق کے دست راست اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ نواز شریف نے بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی کوشش کی۔ یہ وہ مرحلہ تھا جب آصف علی زرداری نے سیاسی جوڑ توڑ اور ملکی سیاست کے نشیب و فراز کو سمجھنے کا فن سیکھا ان پر جلد یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ فرد ہو یا سماج دونوں میں کچھ خوبیاں ہوتی ہیں۔ ہر فرد کی کوئی نہ کوئی کمزوری اور قیمت ہوتی ہے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ مکالمہ اور ترغیب بڑے کارگر ہتھیار ہیں جو طاقت کے توازن اور پلڑے کو کسی طرف بھی جھکا سکتے ہیں۔انہوں نے اداروں اور بیورو کریسی کی کارکردگی عمل دخل اور اثر و نفوذ سے بھی آگاہی حاصل کر لی تھی۔ انہوں نے طاقت کے ایوانوں میں شطرنج کے بدلتے رنگ بھی دیکھ لئے تھے۔وہ اس جوڑ توڑ کے کھیل کو اچھی طرح سمجھ گئے تھے۔1988ء اور 1993ء میں دو بار بے نظیر کے دور اقتدار میں وہ ایوان وزیر اعظم کے مکین بنے ،پاور کے ایوانوں میں ہونے والی تبدیلیوں اور سیڑھی سانپ کے کھیل نے انہیں یہ سکھا دیا تھا کہ سیاست میں ہر وقت دھوبی پٹکا نہیں چلتا سیاست میں حریف کی کمزوریوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جیل کی قید و بند صعوبتوں نے آصف زرداری کو جرأت مند بنا دیا تھا۔ وہ طویل اسیری کے دور میں بھی چڑ چڑے نہیں ہوئے، انسداد دہشت گردی عدالت میں جب بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ خوشگوار موڈ میں گپ شپ لگاتے۔ شاید وہ مطالعہ کے اتنے شوقین نہیں رہے۔لیکن مشاہدات اور انسانی نفسیات پر رکھ کر وہ ایسے دائو پیچ سیکھ گئے جس کے سبب لوگ انہیں ہر فن مولا سمجھنے لگے۔ بے نظیر کی طویل جلاوطنی نے آصف زرداری کو سکھلا دیا تھا۔ کہ کڑی دھوپ کے بعد چھائوں ضرور آتی ہے بے نظیر کی شہادت نے انہیں ایک بڑے امتحان سے دوچار کیا۔اس وقت انہوں نے منظر کو ادھر سے ادھر ہوتے دیکھا۔ ایوان صدر میں پہنچے اور سیاسی اثرورسوخ کے تمام اختیار کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد آئینی ترمیمات کے ذریعے صدر کے دفتر کو بظاہر بے اختیار لیکن سیاسی گرفت کو اپنے ہاتھوں میں مرتکز رکھا۔انہیں احساس تھا کہ پیپلز پارٹی کی سیاسی گرفت کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے لیکن پھر وہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے اپنی حکمت عملی سے بنانے اور بگاڑنے کے کھیل میں ہر ایک کو حیران اور پریشان کرتے رہے۔ ان کی یادداشت حیران کن ہے ،شائستہ ہیں ،دوستوں کے دوست اور سیاسی چالوں میں تاش کے پتوں کو سینے سے لگا کر کھیلنے کے عادی ہیں۔ زندہ دل ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ پرجوش ‘ خوش و خرم دکھائی دیں وہ کشادہ دل کئی حوالوں سے اعلیٰ ذوق کے مالک ہیں کبھی بھی مشکل اور کٹھن وقت سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ پی ڈی ایم سے علیحدگی کی وجہ تھی کیونکہ زرداری صاحب سمجھتے تھے کہ اگر اس نظام کو دھکا لگے گا سیاستدان سارے کھیل سے باہر ہو جائیں گے اس لئے انہوں نے استعفوں اور اسمبلیوں سے باہر رہنے سے خود کو الگ کر لیا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ایک لمبی جست لگا کر مقابلے کے اس اکھاڑے میں شامل ہو سکتے ہیں۔اگر کھیل کے ریفری اور سیاسی میدان کے منتظمین کا اعتماد حاصل کر لیں جس سے ان کا راستہ آسان اور کشادہ ہو سکتا ہے اور وہ اپنی اہلیہ کی میراث کو اپنے بیٹے کو منتقل کرنے کے بعد اس منزل پر دیکھنا چاہتے ہیں جہاں تک بلاول کے نانا اور والدہ نے رسائی حاصل کی تھی وہ ایسا کر پائیں گے یا نہیں۔اس کا علم کسی کو نہیں لیکن یقین سب کو ہے۔