مارکس ٹولیس سسرو نے کہا ہے کہ غلطیاں تو ہر کوئی کرتا ہے مگر احمق نا صرف غلطیوں کا اعتراف نہیں کرتے بلکہ ان پر اڑ جاتے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ احمق ہے نا ہی پاکستانی ،کیونکہ غلطیاں کرنے کا اختیار ہمارے ہاں صرف طاقتور اشرافیہ کو ہے جو غلطیوں کے دائر میںسفراس لئے کر رہی ہے کہ ان غلطیوں میں ان کا اور ان کے پرودہ مافیا کا مفاد پوشیدہ ہے۔رہی بات پاکستانیوں کی تو ان کا المیہ یہ ہے کہ جن کو غلطیوں کا احساس ہوتا ہے ان کو ڈرا دھمکا کر چپ کروا دیا جاتا ہے اگر باز نہ آئیں تو ہمیشہ کے لئے خاموش۔سانحے سے بڑھ کر المیہ یہ ہے کہ جن اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ذاتی مفاد کی خاطر قومی وسائل کی لوٹ مار کا راستہ روکیں وہ طاقتور اشرافیہ کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ کسی بھی مہذب اور زندہ معاشرے میں نظام عدل آکسیجن کا کام کرتا ہے معاشرہ اسی وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اس کو انصاف کی آکسیجن ملتی رہے ۔بدقسمتی سے ہمارا نظام عدل عام آدمی کو انصاف فراہم کرنے میں مسلسل ناکام ہے جس کی وجہ سے عام آدمی نظام عدل سے بیزار ہے اور استحصال کو اپنا مقدر سمجھ کر خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت محسوس کرتا ہے۔ اگر کبھی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی جرأت کرتا ہے تو مافیاز اس کو نشان عبرت بنا کر باقیوں کے لئے مثال بنا دیتا ہے۔ جبر و استحصال کا یہ کھیل صرف نظام عدل کی کمزوری کی وجہ سے جاری ہے۔ یہاں طاقتور انصاف خریدتا اور کمزور ناکردہ گناہوں کا عذاب جھیلنے پر مجبورہے۔ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی توجہ اس طرف دلوانے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح غریب زندگی بخشنے والے مسیحائوں اور ہسپتالوں میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی التجائیں کر رہے ہیں۔ان گزارشات کا اتنا اثر ضرور ہوا کہ جنرل ہسپتال کی انتظامیہ اگرچہ اصلاح احوال تو نہ کر سکی مگر اپنی بے بسی کا اعتراف ضرور کر لیا۔ایم ایس جنرل ہسپتال خالدمحمود نے بتایا عام آدمی ہسپتال میں ہونے والی تمام زیادتیوں کا ذمہ دار ہسپتال انتظامیہ کو سمجھتا ہے جو بے جا بھی نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ہسپتال انتظامیہ خود لوٹ مار مافیاز کے ہاتھوں یرغمال بننے پر مجبور ہے۔ ڈاکٹر خالد کے بقول انہوں نے اپنی پوری کوشش کی کہ پارکنگ مافیاز کو مقرر پارکنگ فیس چارج کرنے کا پابند کیا جائے مگر ٹھیکیدار اس قدر بااثر ہے کہ ان کی ایک نہیں چلی۔ انہوں نے مقررہ ریٹ لاگو کرنے کے لئے دبائو ڈالا تو ٹھیکیدار عدالت چلا گیا۔ عدالت میں تاریخ پر تاریخ پڑتی ہے۔ٹھیکیدار ایک دن میں لاکھوں کماتا ہے وہ ایک دن کی کمائی سے مہنگے وکیل ہی نہیں کرتا بلکہ سرکاری وکیل کا بھی منہ بند کروا دیتا ہے جب کوتوال ہی چور سے مل جائے تو قاضی کیا کرے گا۔ فوٹو کاپی کیفے ٹیریا ایسے تمام ٹھیکے مختلف ناموں پر ضرور ہیں مگر ان کا مالک ایک ہی ہے معاملہ کیونکہ عدالت میں ہے اس لئے ہسپتال انتظامیہ بے بس ہے۔ یہی وجہ ہے کنٹین پر چائے کھانے یہاں تک کولڈ ڈرنکس کے ریٹ نہ صرف مارکیٹ سے زیادہ ہیں بلکہ اشیاء خوردنی بھی غیر معیاری ہیں۔ فوڈ اتھارٹی والے پورے شہر میں چھاپے مارتے ہیں فیکٹریاں اور ہوٹل سیل ہوتے ہیں مگر فوڈ اتھارٹی والوں کا بھی دھیان کبھی کسی سرکاری ہسپتال کی طرف نہیں گیا۔ٹھیکیدار تو صرف ایک مسئلہ ہے یہاں ہسپتال ملازم جس کو تنخواہ ہی مریضوں کی خدمت کی ملتی ہے وہ بھی تنخواہ پر توکل کرنے کے بجائے روزانہ ہسپتال خدمت کے لئے نہیں بلکہ دیہاڑی لگانے آتے ہیں۔ جہاں تک ڈاکٹرز کے رویہ کا تعلق ہے تو پروفیسر صاحبان کے نزدیک سرکاری ہسپتال کی اہمیت پرائیویٹ ہسپتالوں کی شکار گاہ سے زیادہ نہیں اگر ڈاکٹر سرکاری ہسپتال میں ہی مریضوں کی مناسب علاج کے ساتھ کونسلنگ بھی کرنا شروع کر دے شام کو پرائیویٹ کلینک پر کون جائے گا؟۔ رہی بات انتظامیہ تو یہاں خاکروب سے لے کر ینگ ڈاکٹرز تک ہر کیٹا گری کی تنظیمیں ہیں۔ انتظامیہ کسی کے خلاف مس کنڈکٹ پر کارروائی کرے تو متعلقہ تنظیم ہڑتال کرتی ہے، انتظامیہ سمجھوتہ کرنے سے انکار کرے تو دوسری تنظیمیں ساتھ مل کر ہسپتال کا کام بند کر دیتی ہیں۔ یہاںتو پروفیسر صاحبان کو آئوٹ ڈور میں مریضوں کو چیک کرنے اور سرکاری ہسپتال میں مناسب فیس پر پرائیویٹ مریض چیک کرنے کی سہولت فراہم کرنے کا تجربہ بھی ہوا ۔وجہ صرف ایک یہ تھی کہ جو پروفیسر پرائیویٹ ہسپتال میں 5ہزار روپے فیس مل رہی ہے وہ سرکاری ہسپتال میں دو ہزار میں مریض کو چیک کیوں کرے۔ پھر پرائیویٹ ہسپتال مین آپریشن کے لاکھوں وصول کئے جاتے ہیں۔ حکومت نے پالیسی بنانی عملدرآمد کروانا چاہا تمام سہولیات کا اہتمام کیا مگر پھر ہسپتال میں ڈاکٹروں کے ساتھ مریض کے لواحقین کی بدتمیزی اور تشدد کا واقعہ پیش آیا۔ ہڑتال ہوئی مطالبات میں پروفیسر ز کی ہسپتالوں میں مریض چیک کرنے پر پابندی کا خاتمہ تھا حکومت کو ہتھیار ڈالنا پڑے۔حکومت پرائیویٹ ہسپتالوں میں صحت کارڈ پر مہنگے علاج کے اخراجات برداشت کر رہی ہے پرائیویٹ ہسپتال میں دل کے سٹنٹ سے لے کر دیگر سامان فراہم کیا جاتا ہے مگر جب سرکاری ہسپتالوں کی بات آتی ہے تو یہاں صحت کارڈ پر کچھ بھی میسر نہیں۔ پرائیویٹ مافیاز یہاں علاج میں مشکلات پیدا کرتا ہے اپنے اپنے مفاد کے لئے سب ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔حکومت صحت کارڈ اخراجات کی مد میں پرائیویٹ ہسپتالوں کو 100فیصد ادائیگی کرتی ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں کو 34فیصد ۔یہ پالیسی خود سرکار نے بنانی ہے اس کے ایک سو ایک جواز فراہم کئے جا سکتے ہیں مگر مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ سرکاری ہسپتال علاج معالجے کے لحاظ سے پرائیویٹ ہسپتالوں کا مقابلہ نہ کر سکیں حکومت اپنی پالیسیوں سرکاری ملازمین اپنے رویہ اور نظام عدل کرپشن معاملات کو بے جا طول دے کر صرف مافیاز کا ایک ہی مقصد پورا کر ر ہے ہیں کہ ان کی لوٹ مار میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو۔ کیونکہ استحصال کے اس نظام میں ہی مافیاز اور طاقتور اشرافیہ کی بقا ہے۔نگران وزیر اعلیٰ الیکشن کے علاوہ تمام حکومتی امور انجام دے رہے ہیں زیادہ نہیں تو سرکاری ہسپتالوں کے مسائل کے حل کے لئے ہی کچھ وقت نکال لیں تو ہزاروں مریضوں کی جان بچا نے کے ساتھ اپنی آخرت بھی سنوار سکتے ہیں۔