بعد از خرابی بسیار، اپنی منجی ڈھانے کے لئے کوئی مناسب بلکہ حسب منشا جگہ دستیاب نہ ہونے کے بعد فاروق ستار نے بالآخر ایم کیوایم کو نظریاتی بنانے کا اعلان کردیا۔مسئلہ یہ تھا کہ ان کی منجی خاصی بڑی تھی اور بھاری بھی۔ کسی گروپ میں فٹ نہیں آرہی تھی ۔ اسکی ایک ہی صورت تھی کہ منجی بچھائی جائے اور وہ جو ضمنی انتخابات میں انہیں ٹکٹ تک دینے کے روادار نہیں تھے، بال بچوں سمیت اس منجی کے نیچے پناہ لے لیں۔ ایسا ہوا نہیں بلکہ نامعقولوں نے فاروق ستار کا استعفیٰ تک منظور کرلیا تو اب ان کے بچائو کی واحد صورت وہی رہ گئی تھی جو انہوں نے اختیار کی ۔ کراچی پہ تین عشروں سے زائد بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والی ایم کیو ایم تبھی اپنے محور سے ہٹ گئی تھی جب وہ مہاجر قومی موومنٹ کی پرانی پیکنگ سے متحدہ قومی موومنٹ کی نئی اور خوبصورت پیکنگ میں دستیاب ہونے لگی تھی۔ یہ اور بات ہے کہ لندن میں بیٹھے قائد تحریک کا کلہ اتنا مضبوط تھا کہ مہاجر قومی موومنٹ کی نظریاتی تبدیلی سے یہ ظاہری انحراف اس کے ڈھانچے پہ کوئی قابل ذکر اثر نہ ڈال سکا۔ مہاجر قومی موومنٹ حقیقی، چئیرمین آفاق احمد کے زیر سایہ لانڈھی میں بیت الحمزہ تک محدود تھی جہاں وہ اکثر و بیشتر نظر بند رہا کرتے ۔حقیقت یہ ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص مہاجر نظریے کی سیاست کررہا ہے تو وہ یہی آفاق احمد ہیں ۔جب آفاق احمد اور بانی تحریک میں اختلافات بڑھے تو آفاق احمد نے اپنا راستہ الگ کرلیا اور اہلیان کراچی نے دہشت کی ایک نئی فضا دیکھی۔ دونوں دھڑوں نے ایک دوسرے کے کارکنوں کا وہ قتل عام شروع کیا کہ الامان والحفیظ۔ شہر میں کوئی محفوظ نہ رہا۔ کراچی بیروت بن گیا۔ اس لئے نہیں کہ وہاں جا بجا نائٹ کلب کھل گئے بلکہ اس لئے کہ بیروت جیسی خانہ جنگی اس عروس البلا د نے دیکھی۔ آج جب کراچی سے باہر بیٹھے کچھ دانشور ہمیں یہ بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کا راستہ جنہوں نے صاف کیا ، پتہ صاف کرنے والے بھی وہی تھے تو میرا دل چاہتا ہے کہ کاش وہ صرف ایک بار اس شہر آشوب میں جنم لیتے جہاں دہشت اگتی تھی اور موت رقص کرتی تھی۔جب خون ریزی انتہا کو پہنچی اور عالمی سطح پہ کراچی سیکورٹی رسک بن گیاتو نوے کے انتخابات میں صوبے کی دوسری بڑی اور شہر کی مطلق العنان مہاجر قومی موومنٹ کے خلاف بانوے میں آپریشن ہوا اور عقوبت خانے۔’’دریافت‘‘ ہوئے جن کی پہلے کسی کو خبر ہی نہیں تھی۔تب یہی مہاجر قومی موومنٹ حقیقی تھی جو موقع سے فائدہ اٹھانے کے لئے آگے بڑھی لیکن منہ کی کھائی اور اسے اسٹیبلشمنٹ کا ٹٹو ہونے کا طعنہ سننا پڑا۔ مزے کی بات یہ تھی کہ خود ایم کیو ایم کو آج تک جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی یہی طعنہ دیتی ہیں جو اتنا بے جا بھی نہیں تھا۔ ضیاء الحق کے نامہ اعمال میں ایم کیو ایم کا اندراج جلی حروف سے لکھا ہوگا۔جماعت اسلامی کراچی کا جھکائو پیپلز پارٹی کی طرف ہوگیا تھا اورکراچی جو ایوب خان کے زمانے سے آمریت کے خلاف ڈٹا ہوا تھا، اس پس منظر میں جماعت اسلامی کراچی کا یہ رجحان کچھ غیر فطری نہیں تھا۔دوسری طرف سندھ کے بڑے جاگیرداروں کو اردو بولنے والے طبقے کا اس کے زیردست طبقے کے ساتھ میل جول کچھ پسند نہیں آرہا تھا جو بہتر معاش کی تلاش میں بڑی تعداد میں کراچی کا رخ کررہا تھا۔یہ صدیوں سے بالا دست طبقے کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں تھا۔ ادھر اردو بولنے والے طبقے کی محرومی پہ کوٹہ سسٹم کی مہر لگی ہوئی تھی جو آج تک لگی ہے کیونکہ خود ایم کیو ایم نے پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر اس میں گیارہ سال کی توسیع کی۔ یہ کوٹہ سسٹم اردو بولنے والے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے خالصتا انتظامی بنیادوں پہ خود مہاجروں کے مفاد میں نافذ کیا تھا جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر نئے ملک چلے آئے تھے۔بعد ازاں بھٹو نے اسے مزید دس سال تک بڑھا دیا، یوں سندھ دیہی اور شہری علاقوں میں تقسیم ہوگیا۔ بھٹو کے خلاف جب پی این اے کی تحریک چلی تو اس میں شامل تمام جماعتوں نے کوٹہ سسٹم ختم کرنے کا مطالبہ کیا لیکن مزے کی بات یہ ہوئی کہ بھٹو کا تختہ الٹ کر آنے والی ضیا حکومت میں شامل ہونے والی جماعتوں بشمول جماعت اسلامی نے کبھی کوٹہ سسٹم ختم کرنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی میعاد مزید دس سال کے لئے بڑھا دی گئی جو تعلیم اور روزگار کے بھنور میں پھنسے اس مہاجر نوجوان کے لئے کسی تازیانے سے کم نہ تھا جس کے پاس تعلیم کے سوا کوئی انویسٹمنٹ نہیں تھی۔ جاگیرداری اور زمین تو بالکل بھی نہیں۔یہی وہ وقت تھا جب کراچی کے میئر عبد الستار افغانی نے کراچی وہیکل ٹیکس کا غلغلہ بلند کیا اور کراچی کا ریونیو کراچی میں خرچ کرنے کا مطالبہ کیا۔یہ واویلا بعد از مرگ تھا کیونکہ اے پی ایم ایس او کی صورت میں مہاجر قومیت کا بھوت بوتل سے باہر آچکا تھا۔اس بھوت کے سر پہ پیپلز پارٹی کو سبق سکھانے کی غرض سے ضیاء الحق نے بھی ہاتھ رکھا اور اندرون سندھ کے شعور سے خائف سندھی قوم پرستوں نے بھی۔ شنید ہے کہ بانی تحریک نے جی ایم سید کے گھٹنے چھو کر فرمائش کی تھی کہ سائیں ہمیں بھی کوئی نعرہ دیو۔یہ نعرہ دیا گیا اور اس نے مذہبی جماعتوں کی منافقت کی دھجیاں اڑا دیں جن کے رہنما اپنے نام کے ساتھ ذات کا نام فخر سے جوڑتے لیکن مہاجر قومیت کے نعرے کو عصبیت کا نام دے کر کفر کے فتوے لگاتے تھے۔اس کے بعد کی کہانی خون اگلتی ہے۔ کون تھا جس نے چودہ سیٹوں کی خاطر اس خون کی گنگا میں اشنان نہیں کیا؟اس جرم میں سب برابر کے شریک ہیں۔ اگر فاروق ستار ایم کیو ایم کو نظریاتی ایم کیو ایم بنانا چاہتے ہیں تو مہاجر نظریئے کا راستہ کھلا ہے ۔ اس سے اسٹیبلشمنٹ کی فرمائش پہ انحراف صرف ایک شخص کرسکا تھا کیونکہ اس کا شہر اور پارٹی دونوں پہ کنٹرول تھا۔ فاروق ستار واپس جانا چاہتے ہیں تو ضرور جائیں لیکن آفاق احمد جو آج بھی مہاجر نظریے اور جنوبی صوبے کا علم تھامے ہوئے ہیں، اعلان کرچکے کہ اگر لندن سے کوئی واپس آیا اور مقدمات واپس لے لئے گئے تو وہ پارٹی اس کے حوالے کردیں گے۔ اب یہ سوچنا حکومت کا کام ہے کہ وہ کراچی کے اصل مسائل حل کرے گی اور مہاجر شناخت کی قبولیت کا درجہ دے کر اسے لگام ڈالے گی یا کراچی کو ایک بار پھر ان کے حوالے کرے گی جن کے پاس فی الحال صرف چار سیٹیں ہیں۔ اگلے چار سال میں یہ چودہ ہوسکتی ہیں۔اس سے پہلے ہوش کے ناخن لینے ہونگے۔