اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دینا اور اس کا تحفظ یقینی بنانا انسانی فطرت میں شامل ہے۔قومیں اور ملک افراد سے بنتے ہیں،اِسی لیے انکے رویے بھی انسانی فطرت کی بنیاد پر تشکیل پاتے ہیں اور عالمی سیاست کے اَکھاڑے میں ہر ملک اپنے مفاد کو عزیز رکھتا ہے اور اِسی کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ اِس کی تازہ مثال فرانس اور امریکہ کے درمیان باہمی تعلقات کی حالیہ نوعیت کی دی جا سکتی ہے۔فرانس اور امریکہ کے باہمی قریبی تعلقات صدی پرانے ہیں،دونوں ملک جنگ عظیم اوّل اور جنگ عظیم دوئم میں بھی حلیف تھے جبکہ جنگ عظیم دوئم کے بعد سوویت کیمونزم اور مغربی لبرل جمہوریت کے مابین نظریاتی بنیاد پر شروع ہونے والی کشمکش، جسے دنیا "سرد جنگ" کے نام سے جانتی ہے اور جس نے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا، کے دوران بھی امریکہ اور فرانس مضبوط اور قریبی حلیف رہے ہیں۔ فرانس سمیت یورپی ممالک اور امریکہ کے درمیان سوویت کیمونسٹ بلاک کی طرف سے کسی بھی ممکنہ جارحیت کے دفاع کیلئے 1949ء میں قائم ہونیوالے فوجی اتحاد نیٹو ( NATO ) کے پلیٹ فارم پر بھی دونوں ممالک قریبی ساتھی ہیں۔ سوال اب یہ پیدا ہوتا ہے کہ فرانس اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں کیونکر خرابی پیدا ہوئی ہے؟ اور فرانس اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بگاڑ کے یورپی یونین پرکیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ اِس کالم میں اِن سوالات کے جوابات دئیے جائیں گے۔ فرانس اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں بگاڑ کی تازہ وجہ ستمبر کے دوسرے عشرے میں ہونے والا آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے مابین آکس (AUKUS)کے نام سے طے پانے والا سہ ملکی دفاعی معاہدہ ہے، جس کے نتیجے میں آسٹریلیا، امریکہ سے کروز میزائل اور ایٹمی آبدوزیں حاصل کر سکے گا۔ اگرچہ اِس معاہدہ کی رو سے تینوں ممالک اپنی دفاعی صلاحیتیوں کو مزید مضبوط بنا سکیں گے مگر آکس معاہدہ کا فوری اثر یہ ہوا کہ آسٹریلیا نے فرانس سے روایتی آبدوزیں خریدنے کے لیے 2016 ء میں طے ہونے والا کئی ارب ڈالر کا معاہدہ ختم کر دیا ہے۔ فرانس کے ساتھ آبدوز کا معاہدہ دستخط کے وقت تقریبا 50 بلین آسٹریلوی ڈالر (36.5 بلین امریکی ڈالر) تھا جبکہ حال ہی میں مجموعی طور پر سودے کا تخمینہ 90 ارب آسٹریلوی ڈالر کا تھا ، جس میں کرنسی کے اتار چڑھاؤ اور لاگت میں اضافے کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق، آبدوز کے بیڑے کے علاوہ AUKUS "سائبر ، مصنوعی ذہانت ( خاص طور پر اَپلائیڈ مصنوعی ذہانت ، کوانٹم ٹیکنالوجیز، اور کچھ زیر سمندر صلاحیتوں کے ساتھ اِتحادی افواج کو یکجا کرے گا"۔ آکس معاہدہ کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا ہے (اگرچہ اِس کا اعلان نہیں کیا گیا ہے) جبکہ آسٹریلیا کے وزیر اعظم سکاٹ موریسن کے 16 ستمبر کے میڈیا بیان کے مطابق آکس کے قیام کا بنیادی مقصد انڈو پیسیفک ریجن میں سفارتی، سیکورٹی اور دفاعی تعاون کو مضبوط بنانا ہے تاکہ اکیسویں صدی کے چیلینجز سے نمٹا جا سکے۔ دوسری طرف چین نے آکس کے قیام کو سرد جنگ کی ذہنیت اور غیر ذمہ دارانہ سوچ کی حامل قرار دیتے ہوئے علاقائی اِستحکام کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ امریکہ اور چین کے مابین شروع ہو نے والی ممکنہ سرد جنگ پر آکس معاہدے کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں اِس پر علیحدہ کالم میں گفتگو ہو گی۔ مندرجہ ذیل سطور میں آکس معاہدے کے امریکہ اور فرانس کے باہمی تعلقات پر ہونے والے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔ چونکہ فرانس یورپی یونین کا ایک اہم ملک ہے تو فرانس اور امریکہ کے باہمی تعلقات میں دراڑ امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات کو کس حد تک متاثر کر سکتی ہے یہ بھی ایک اہم پہلو ہے جس کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ فرانس نے آکس معاہدے پر کافی ناراضگی کا اظہار کیا ہے اور فرانس کے وزیر خارجہ نے معاہدے کو "پیٹھ میں چھرا گھونپنے" کے مترادف قرار دیا ہے کیونکہ امریکہ اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والے معاہدے کی وجہ سے آسٹریلیا نے فرانس سے آبدوزیں خریدنے کا سودا منسوخ کردیا ہے جبکہ اِس سودے میں فرانسیسی صدر میکرون کی ذاتی دلچسپی شامل تھی۔ جب 2016 ء میں یہ معاہدہ ہوا تھا تو پیرس نے اِسے صدی کا معاہدہ قرار دیا اور اسے آسٹریلیا اور وسیع انڈو پیسفک کے ساتھ فرانس کے اسٹریٹجک تعلقات کا ایک اہم سنگِ میل قرار دیا تھا۔ اب پانچ سال بعد سودے کی منسوخی فرانس کے لیے تجارتی نقصان کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر وقار مجروح ہونے کا سبب بنی ہے اور عالمی سطح پر فرانس کی سیاسی ساکھ شدید متاثر ہوئی ہے۔ فرانس نے رَدِعمل میں آسٹریلیا اور امریکہ سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں جبکہ امریکہ کے رویے کو بد اعتمادی پر مبنی قرار دیا ہے۔ فرانس گزشتہ کچھ سالوں سے یورپی یونین کی آزادانہ اور خود مختار سیکورٹی پالیسی کا حامی ہے،جس میں امریکہ پر اِنحصار کم سے کم ہو۔ موجودہ فرانسیسی صدر میکرون اِسی پالیسی کے بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ اب فرانس کی خواہش ہے کہ جرمنی ، جو کہ یورپ کی سب سے مضبوط اِکانومی ہے، کے ساتھ مل کر یورپی یونین کی ایک مشترکہ دفاعی پالیسی اختیار کی جائے تا کہ دفاعی محاذ پر یورپی ممالک کا امریکہ پر اِنحصار ختم ہوسکے۔ گزشتہ ہفتے 26 ستمبر کو فرانس اور یونان کے مابین اسٹریٹجک دفاعی شراکت داری کا معاہدہ بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہوتا ہے جِس کے تحت یونان فرانس سے چھ سے آٹھ جنگی جہاز خریدے گا۔ یونانی وزیر اعظم نے اِس قدم کو "یورپی دفاعی خودمختاری کی طرف پہلا قدم" قرار دیا ہے اور پیرس میں فرانسیسی صدر کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا ہے کہ "ہمارے پاس چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے یورپ کے ایک خود مختار ردعمل کی صلاحیت کا ایک مشترکہ نقطہ نظر ہے." اِن حالات میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں یورپی یونین کے رکن ملک باالعموم اور فرانس باالخصوص امریکہ کے سیاسی اثرورسوخ سے باہر نکلتا ہوا نظر آرہا ہے۔