دماغ دنیا کی پیچیدہ ترین مشین اور ذہن سازی مشکل ترین کام ہے۔فرد کی ذہنی تربیت کے لئے دن ہفتے نہیں۔ برسوں درکار ہوتے ہیں تو اجتماعی شعور بننے کے لئے دہائیاں اور صدیاں ۔ماہرین نفسیات کے مطابق جب کسی معاشرے میں کوئی مخصوص سوچ راسخ کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے معاشرے میں سے ایسے افراد کو منتخب کیا جاتا ہے جن میں اس مخصوص طرز عمل کا رجحان ہو۔ان کی فکری تربیت اس انداز میں کی جاتی ہے کہ اس گروہ کی اس ذہنی آمادگی کو عقیدے میں بدل دیا جاتا ہے پھر ایک منظم انداز میں معاشرے میں اس فکر کے فروغ کے لئے ریاستی وسائل اور طاقت کو بروئے کار لایا جاتا ہے۔ قیادت رول ماڈل کا کردار ہی اس وقت کرتی ہے جب وہ خود اس طرز فکر پر یقین رکھتی ہو۔ عقیدے کو یقین میں بدلا جاتا ہے۔عقیدہ جب عقلی دلیل کو ماننے سے انکار کر دے تب یقین کی منزل پاتا ہے۔ نفسیات میں کرداریت ایک مکمل سکول آف تھاٹ ہے۔ امریکہ نے1979ء کی سوویت افغان جنگ میں پاکستانیوں کو جنگ کا ایندھن بنانے کے لئے کرداریت کے اسی فلسفہ کو کامیابی سے استعمال کیا۔ دنیا بھر سے مسلمانوں کو جہاد کے نام پر افغانستان لا کر سوویت یونین سے بھڑا دیا۔2001ء میں جب امریکہ نے اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر جنگ مسلط کی۔پاکستان کو اس جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بنایا تو افغانستان میں جہاد کرنے والے گروپوں نے مزاحمت کی۔ افغان جنگ کے شعلوں نے پاکستان میں دہشت گردی کو جنم دیا۔ریاست دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر مجبور ہوئی۔راقم نے 2008ء میں لکھا تھا کہ ’’ریاستی کارروائیاں دہشت گردوں کو تو ختم کر سکتی ہیں دہشت گردی کو نہیں۔1979ء میں جس شخص نے 18بیس سال کی عمر میں جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر ہتھیار اٹھایا اس کی سوچ کو تبدیل کرنا ممکن نہیں۔ اس نسل کے اپنے طبعی انجام تک پہنچنے کے بعد معاشرے میں تبدیلی کو دھائیاں لگیں گی۔‘‘عمران خان کا بھی یہی موقف تھا کہ قبائلی علاقوں کے جنگجوئوں کی غیر ملکی مداخلت کے خلاف مزاحمت کو امریکہ نے پہلے جہاد کہا اب وہ امریکہ کی افغانستان میں مداخلت کو دہشت گردی کیسے تسلیم کر لیں۔ہوا بھی ایسا ہی 1979ء میں جس شخص نے 20سال کی عمر میں ہتھیار اٹھایا تھا 2020ء تک پہنچتے پہنچتے وہ 60سال کا بزرگ ہو کر ہتھیار اٹھانے کے بھلے قابل نہ رہا مگر اس کی سوچ تبدیل نہ ہو سکی۔ 1979ء میں قبائلی سماج میں جو ذہن سازی کی گئی آج نصف صدی بعد بھی یہ سوچ کمزور ہوئی ہے، ختم نہیں۔ اسے پاکستان کا المیہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو ایک بار پھر اسی قسم کی صورتحال کا سامنا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ماضی میں جہاد معاشرے کے اجتماعی شعور کا حصہ تھا تو آج حکمرانوں کی قومی خزانہ لوٹنے کی کہانیاں۔ 1988ء کے بعد پاکستان میں اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر کرپٹ ہونے اور قومی دولت لوٹنے کے الزامات لگانے شروع کئے۔ مسلم لیگ ن نے آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ قرار دیتے ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو اور ان کی پارٹی قیادت پر قومی کرپشن کے مقدمات بنائے۔پیپلز پارٹی بھی مسلم لیگ ن پر ووٹ خریدنے اور قومی دولت لوٹنے کے الزامات لگاتی رہی۔مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے ایک دوسرے کو چور چور کہنے کے بعد پرویز مشرف نے دونوں پر قومی دولت لوٹنے اور احتساب کا وعدہ کرکے اقتدار کو طول دیا۔1980ء میں پیدا ہونے اور چور ڈاکو کی آوازیں سننے والے آج 40سال کے ہو چکے۔ ان کانوں اور آنکھوں نے 2008ء سے 2018ء تک ’’عجب کرپشن کی غضب کہانیاں‘‘ سنیں اور دیکھیں۔ ماضی میں کرپشن کے الزامات میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو اپنے دور اقتدار میں مخالفین کو جیلوں میں ڈالتے بھی دیکھا۔اس دوران عمران خان نے قومی دولت لوٹنے والوں کے اربوں ڈالر پاکستان واپس لانے کی بات کرکے پاکستانیوں کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اسلام آباد میں 126دن دھرنا دے کر پاکستانیوں کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی کرپشن کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی۔یہ آمادگی یقین میں اس وقت بدلی جب پانامہ پیپرز میں پاکستان کے سابق حکمرانوں کے بارے میں سیسلین مافیا اور گارڈ فادر کے ریمارکس کے بعد میاں نواز شریف کی کرپشن پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی۔سپریم کورٹ کے فیصلے نے حکمرانوں کے کرپٹ ہونے کے خیال کو یقین میں بدل دیا جس کے بعد ہی عمران خان کے اقتدار کی راہ ہموار ہوئی۔عمران خان کے تین سال اقتدار میں مقصود چپڑاسی اور پاپڑ فروش کے اکائونٹ میں اربوں روپے کی برآمدگی کے پرچار نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے کرپٹ ہونے اور قومی دولت لوٹنے کی سوچ کو پاکستانیوں بالخصوص نوجوانوں کے یقین میں بدل دیا۔جس کا عملی مظاہرہ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی اور میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم بننے کے بعدملک کے تمام شہروں میں دیکھا گیا۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں میاں شہباز شریف کے بجائے کوئی ایسا شخص وزیر اعظم کا امیدوار ہوتا جس پر بدعنوانی اور لوٹ مار کے مقدمات نہ ہوتے تو عمران خان کی بے دخلی کے بعد پاکستان کے نوجوانوں کا ردعمل بھی اتنا شدید نہ ہوتا۔ تحریک انصاف کی قیادت کی غیر موجودگی کے باوجود تمام شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں ایک ہی وقت میں جو لوگ نکلے ، ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ پاکستان کی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب 65فیصد ہے یہ وہ 65فیصد ہیں جن کے کانوں نے پہلی آواز چور ڈاکو اور لوٹ مار کی سنی اور ان الزامات میں سزائیں ہوتیں بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ اب یہ سوچ ان کے اجتماعی لاشعور میں یقین کی حد تک مضبوط ہو چکی۔ ان حالات میں پاکستانیوں بالخصوص نوجوانوں کے لئے شہباز شریف کو وزیر اعظم قبول کرنا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہو گا ۔ اگر عدالتیں شہباز شریف کو عمران کی حکومت میں ہی مقدمات میں بے گناہ قرار دے دیتیں تو یہ کام کسی حد تک آسان ہو سکتا تھا۔بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اگر ریاست نے اس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے کوئی منظم حکمت عملی نہ اپنائی تو ملک انارکی اور خلفشار کی طرف بڑھ سکتا ہے کیونکہ جس طرح ذہن سازی دنوں ہفتوں میں نہیں ہوتی اس طرح اجتماعی شعور میں بدلائو کے لئے بھی دہائیاں درکار ہوتی ہیں۔