دانش احمد انصاری

سوشل میڈیا نے جہاں دنیا کو گلوبل ویلیج بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، وہیں اِس کے مضر اثرات سے بھی انکار ممکن نہیں۔ ایک آن لائن سروے کے مطابق 18 برس سے کمر عمر بچے فیس بُک پر آویزاں ہونے والے جوئے اور الکوحل کے اشتہارات کی جانب رجحان ظاہر کر رہے ہیں۔ سروے میں بتایا گیا کہ دنیا بھر سے لاکھوں کی تعداد میںنو عمر فیس بُک صارفین نے شراب اور آن لائن جوئے کے اشتہارات پر کلک کیا۔ اِس سروے سے حاصل ہونے والے نتائج کو بنیاد بنا کر معروف امریکی جریدے اور ڈینش براڈکاسٹنگ کارپوریشن نے مشترکہ تفتیش کا آغاز کیا۔فیس بُک کے ایک اشتہاری ٹول کے استعمال سے معلوم ہوا کہ دنیا بھر میں تقریباً سات لاکھ چالیس ہزارنہ بالغ بچے جوئے سے متعلقہ اشتہارات میں دلچسپی لیتے پائے گئے، جن میں ایک لاکھ تیس ہزار کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ اِسی طرح شراب کے اشتہارات میں دلچسپی لینے والے بچوں کی تعداد نو لاکھ سے زائد بتائی گئی، جس میں سے ڈیڑھ لاکھ کا تعلق برطانیہ سے تھا۔ فیس بُک کے پاس اشتہارات کے حوالے سے ایک ایسا فیچر موجود ہے، جس کا استعمال کرکے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مختلف کیٹگریز کے اشتہارا ت میں کس عمر، جنس، کلاس اور علاقے سے تعلق رکھنے والے صارفین دلچسپی لے رہے ہیں۔ اِس فیچر کا استعمال کمپنی ’ٹارگٹ آڈینس‘ کو بہتر بنانے کے لیے کرتی ہے، لیکن جب گزشتہ چند برسوں کے نتائج کا تجزیہ کیا گیا تو بچوں کا جوئے اور شراب جیسے اشتہارات میں دلچسپی جیسے افسوسناک نتائج سامنے آئے۔امریکی جریدے کی جانب سے جب فیس بُک سے سروے کے نتائج کا پوچھا گیا تو کمپنی نے شراب اور جوئے کے اشتہارات کے حوالے سے  اپنی پالیسی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا، ’’فیس بک کسی بھی ایسے اشتہار کو اپنے پلیٹ فارم پر آویزاں ہونے نہیں دیتی جس میں الکوحل اور جوئے کی تشہیر کی گئی ہو۔‘‘ افسوسناک بات یہ ہے کہ فیس بُک انتظامیہ اپنی پالیسی پر عمل نہیں کر رہی، یہی وجہ ہے کہ سوشل پلیٹ فارم پر غیر اخلاقی اشتہارات آویزاں ہورہے ہیں۔ فیس بُک اپنے ایڈورٹائزرز کی سہولت کے لیے ’ٹارگٹ آڈینس‘ کا فیچر ماضی میں متعارف کروا چکی ہے، جس کا استعمال کرتے ہوئے اشتہاری ایجنسیاں اپنے اشتہار صرف اُن صارفین کو دکھا سکتی ہے، جو متعلقہ اشتہارات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے سے نہ صرف پیسے کا ضیاع نہیں ہوتا، بلکہ اشتہارات میں دلچسپی نہ رکھنے والے افراد بھی نیوز فیڈ میں غیر متعلقہ اشتہارات سامنے آنے سے بچے رہتے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ فیس بُک پہلی مرتبہ اِس جرم کا ارتکاب کرتے ہوئے نہیں پکڑا گیا، بلکہ 2018ء میں بھی میڈیا پلیٹ فارم ’ٹارگٹ آڈینس‘ کا فیچر استعمال کرکے، اسلام، لبرلزم، جنس اور مختلف سیاسی و مذہبی عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد کو پروپیگنڈا مواد دکھا چکا ہے۔