کائنات کے رب کا حکم ہے کہ فیصلہ حق اور سچ کے ساتھ کرو۔چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ٹھہری یہ بھی حکم ہے۔لیکن فاروق اعظم سیدنا عمرؓ نے فرمایا کہ قحط کے حالات میں اس سزا پر عملدرآمد نہیں ہو سکتا۔خانے پر بن جائے تو اس حالت میں کئے گئے جرم پر ہاٹھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ظاہر ہوتا ہے کہ فیصلہ کرتے ہوئے معروضی حالات اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ میں جب بھی پاکستان کے عدالتی نظام پر نظر ڈالتا ہوں پھر یہ خیال ہی مجھے ہمیشہ حیران کرتا رہتا ہے کہ اتنی خوفناک جیلوں اتنے سخت قوانین اور وارداتوں کے اتنے لرزہ خیز نتائج(جن میں پولیس مقابلے میں مرنے کے امکانات بھی ہوتے ہیں) کے باوجود جرائم کے تناسب میں اتنا اضافہ کیوں؟ اس کا جواب بھی بڑا سیدھا اور واضح ہے۔دراصل پاکستان میں شروع دن سے قوانین کو انتہائی سخت بنائے گئے۔لیکن انصاف کا عمل اتنا نرم ڈھیلا اور طویل رکھا گیا کہ مدعیوں کی تین تین نسلیں فیصلہ سننے کی آس میں قبروں تک پہنچ جاتی ہیں۔لیکن سماعتیں پیشیاں‘ گواہیاں‘ تاریخیں‘ ثبوت‘ بیانات‘ اسٹامپ پیپر اور شہادتیں مکمل نہیں ہوتیں لہٰذا مجرم کو معلوم ہو گیا۔اگر ان کے پاس چند پیسے ہیں تو قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اسٹے آرڈر لینا‘ پیرول پر رہا ہونا اور ضمانت قبل از گرفتاری کا بندوبست کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔چنانچہ اس ملک میں جرائم ہوتے رہے مجرم رہا ہوتے رہے۔وقت گزرتا رہا لیکن ہم اس عدالتی گورکھ دھندے میں آج بھی اسی طرح پھنسے ہوئے ہیں اس لئے آج بھی ایسا ہی دکھائی دیتا ہے ہمارے نظام عدل میں عدل کے سوا سب کچھ ہے۔اس لئے آپ دیکھ لیں کہ جہاں نچلی سطح پر عدالتی نظام کی کریڈیبلٹی پر انگلیاں اٹھائی جاتی رہی۔وہاں آج کے حالات میں اعلیٰ عدالتی نظام پر طرح طرح کے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اس لئے یہ بھی طے ہے کہ اگر ہم نے یہ ملک چلانا ہے ہم نے اس سبز پرچم تلے زندگی گزارنی ہے اس شناختی کارڈ اور اس پاسپورٹ کے ساتھ رہنا ہے تو ہمیں اس نظام کو بدلنا ہو گا اس کی جگہ ایک ایسا نظام لانا ہو گا، جس کے فیصلے آزاد بھی ہوں اور فوری بھی۔ اتحادی حکومت گھبرائی سہمی ہوئی اور غیر یقینی سے دوچار ہے۔عمران خاں ایک ساتھ کئی محاذوں پر نبرد آزما ہیں۔ وہ پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ رہے، یہ احساس کرتے ہوئے بھی کہ وہ اندھا دھند غلط فیصلے کرتے چلے جا رہے ہیں، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آنے کی خواہشمند ہیں، تو وہ درست سمجھ رہا ہے۔لیکن وہ جس راستے پر چل رہے ہیں، وہ مشکل بھی ہے اور ان کے لئے پریشان کن بھی۔ وہ یہ مقصد بآسانی حاصل کر سکتے تھے، اگر وہ تحمل ‘ رواداری اور حالات کے تحت فیصلے کرتے۔ان سے کس عقل کے اندھے نے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی سے استعفے دیدے، انہیں کس بقراط نے مشورہ دیا تھا کہ وہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں توڑ دیں یقین جانیں اگر وہ قومی اسمبلی سے استعفے نہ دیتے تو آج وہ دوبارہ بغیر انتخابات کے ملک کے وزیر اعظم بن سکتے تھے۔وہ اگر پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں نہ توڑتے تو بآسانی مذاکرات کی میز پر انتخابات کے انعقاد پر اپنی بات منوا سکتے تھے، انہیں کس دانشور نے یہ سمجھایا تھا کہ وہ اپنی توپوں کا رخ اداروں کی طرف کر دیں۔اس سے انہوں نے کیا حاصل کیا۔صرف نقصان اٹھایا اب مقتدر حلقے انہیں قابل بھروسہ نہیں سمجھتے۔ وہ پارٹی جو پورے میں سیاسی کلچر اور منظم انتخابی صلاحیت کی مثال سمجھی جاتی تھی اس پر سوالیہ نشان لگنے لگے۔جب آپ اختلاف رائے کو اپنے اصلاح احوال کے بجائے طاقت کے استعمال سے غلط کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو پھر بتدریج آپ کا سیاسی بھروسہ بھی کمزور پڑتا جاتا ہے اور آپ کے مخالفین آپ کے خلاف صف آرا ہو جاتے ہیں۔عمران خاں وہی غلطی کرتے رہے ہیں جب آپ سمجھتے ہیں کہ آپ جو چاہیں گے منوا لیں گے۔بزور طاقت جتھوں کی سیاست کے ذریعے تو ایسا کبھی کبھی تو ہوتا ہے۔آپ 50ہزار ووٹ سے بھی جیتتے ہیں لیکن آپ جب اسے 2لاکھ اور 3لاکھ ووٹ بنانے کی خواہش رکھیں تو یہ بات آپ کے لئے بالآخر فائدہ مند نہیں نقصان دہ ہوتی ہے۔پھر یہ بھی کہ ایک فہم و فراست والی لیڈر شپ کے لئے ضروری ہے کہ وہ وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھے وقت کے ساتھ رولز آف گیم بھی بدلتے ہیں ایک اچھے لیڈر کے لئے ضروری ہے کہ وہ فہم کے ساتھ ساتھ رواداری اور اپنے رویے میں لچک ضرور رکھے۔عمران خاں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنی بات کو کہنے کا ڈھنگ جانتے ہیں اس پر بار بار اصرار کر کے وہ اپنے حمایتیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے وہ ایک پرکشش شخصیت کے مالک ہیں کرکٹ کے حوالے سے ان کا ہیرو کا امیج ہے۔ایک سوشل ریفارمر کی حیثیت سے ان کی خدمات مثالی ہیں۔لیکن بحیثیت سیاستدان اپنی تمامتر شہرت کے باوجود ان کی کارکردگی اور فیصلوں کی صلاحیت پر بے شمار سوالات ہیں۔دوسری طرف حکومت ہے،جس میں شامل تمام جماعتوں نے عمران خاں کو اقتدار سے محروم کر کے انہیں نئی لائف لائن دیدی ہے۔انہیں ہیرو بنا دیا ہے ممکن ہے اپوزیشن سمجھتی ہو کہ اگر وہ اس وقت انہیں نہ ہٹاتی تو شاید اسے زیادہ نقصان ہو جاتا ان میں بعض لیڈر سلاخوں کے پیچھے چلے جاتے۔بعض اہم تعیناتیوں میں وہ منہ تکتے رہ جاتے اور انہیں دوبارہ اقتدار ملنے کے راستے اور امکانات مسدود ہو جاتے لیکن میرا خیال ہے کہ اپنی تمامتر نقطہ نظر کے باوجود عمران خاں کو اپریل 2022ء میں ہٹانا موجودہ اتحادی حکومت میں شامل جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ ن کے لئے خودکشی ثابت ہوئی ہے۔وہ اپنا سیاسی اثاثہ بچانے کے لئے جس طرح کے اقدامات کر رہی ہے اس سے فائدے کے بجائے نقصان ہو رہا ہے۔اس کے پاس اب بھی ایک موقع ہے کہ وہ کھلے دل کے ساتھ عمران خاں کو مذاکرات کی دعوت دیں اور ان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنائیں تاکہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو۔عمران جیتتے ہیں تو جیتیں آپ اپوزیشن میں بیٹھ جائیں کوئی قیامت نہیں آئے گی یقین جانیں آپ نہ صرف اپنا سیاسی اثاثہ بچا لیں گے بلکہ دوبارہ Riviveہونے کے امکانات موجود ہیں نواز شریف کے لئے بہتر ہے کہ وہ انتخابی معرکہ آرائی میں اپنی جماعت کو لیڈ نہ کریں کیونکہ اس طرح ان کا امیج دھندلا جائے گا۔بصورت دیگر وہ ایک امید کے طور پر موجود رہیں گے۔ وقت کا انتظار کریں۔