وزیر اعظم عمران خان نے باجوڑ اور مہمند ایجنسی میں عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبائلی عوام نے پاکستان کے لئے بہت قربانیاں دیں ہیں لیکن اب قبائل کی آسانی کا وقت شروع ہو گیا ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر ماضی قریب تک قبائلی علاقہ جات میں برطانوی سامراج کے فرنٹیئر کرائم ریگولیشن FCRقانون کے تحت معاملات چلائے جاتے رہے، اس قانون کو کالا قانون بھی کہا جاتا رہا۔ کیونکہ اس قانون کے تحت فاٹا کے کسی بھی شہری کو جرم بتائے بغیر گرفتار کیاجاتا تھا، پھر ایف سی آر کے قانون کی رو سے انہیں اپنی صفائی کے لئے وکیل‘ دلیل اور اپیل جیسے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ اسی احساس محرومی نے قبائلی عوام میں احساس کمتری پیدا کیا۔ جس بنا پر وہ ملک کے دیگر خطوں میں بسنے والے افراد سے نفرت کرنے لگے۔ یہ علاقہ سرحد کے قریب ہونے کی بنا پر مسلح جنگجوئوں کی تربیت کا محفوظ مقام تصور کیا جاتا تھا۔ مسلح دہشت گرد ان علاقوں میں بیٹھ کر ملک بھر میں دہشت گردی‘ نفرت اور تخریب کاری پھیلاتے تھے۔ پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سیاسی اور عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھی اور نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا،جس کے تحت ملک بھر سے دہشت گردی کے اڈے ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ نیشنل ایکشن پلان کے تحت قبائلی علاقہ جات کو بھی قومی دھارے میں لانے کا منصوبہ تشکیل پایا۔ اس سلسلے میں سابق مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، اس کمیٹی نے فاٹا انضمام کا روڈ میپ تیار کیا۔ جس میں فاٹا کے عوام کا احساس محرومی ختم کرنے، ترقی اور خوشحالی کے لئے سالانہ ایک سو دس ارب روپے فراہم کرنے کا منصوبہ تشکیل دیا۔ جبکہ آئی ڈی پیز کی بحالی کے لیے الگ سے فنڈز مقررکرنے کا بھی کہا گیا، لیکن ابھی تک اس علاقے کو تجویز کردہ فنڈز بھی نہیں مل سکے۔ جبکہ انتظامی امور چلانے کے لئے مطلوبہ تعداد میں ملازمین بھی دستیاب نہیں۔ صحت‘ تعلیم ‘ لااینڈ آرڈر کی صورتحال بھی تسلی بخش نہیں ہوئی۔ خیبر پی کے حکومت قبائلیوں کو اپنے طور پر پائوں پر کھڑا نہیں کر سکتی کیونکہ ماضی کی شورش کی بنا پر اس علاقے کا انفراسٹرکچر مکمل تباہ ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے صحت کارڈ کا دائرہ قبائلی علاقہ جات تک بڑھایا ہے۔جوقابل تحسین ہے ۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ وزیر اعظم جب اس علاقے کا دورہ کرتے ہیں تو وزیر اعلیٰ خیبر پی کے اور گورنر متحرک ہو جاتے ہیں‘ ورنہ وہ ان علاقوں کی بحالی کے لئے کوئی خاص اقدام نہیں کرتے ۔ فاٹا کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ بنانے کے لئے وہاں پر صوبائی اور بلدیاتی الیکشن بہت ضروری ہیں۔ فاٹا کے نمائندے جب ایم پی اے ،وزیر اور مشیر بنیں گے تو وہ اپنے علاقے کی بہتری کے لئے نہ صرف بہتر آرا دے سکیں گے بلکہ دل و جان سے وہاں کے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام بھی کریں گے۔ اپنے ووٹرز کو سرکاری محکموں میں ملازمتیں دلوا کر وہاں کے نوجوانوں کے دلوں میں پیدا شدہ احساس محرومی ختم کریں گے۔ سڑکوں‘ بجلی ‘ گیس‘ مارکیٹوں ‘ کھیل کود کے لئے سٹیڈیم ‘ تعلیم کے لئے سکولز‘ کالج اور یونیورسٹیاں‘ صحت کے لئے ہسپتال اور روزگار پیدا کرنے کے لئے وہاں پر صنعتیں لگانے کے لئے سرمایہ داروں کو راغب کرینگے۔ اس وقت بھی ان علاقوں میں ترقیاتی کام ہو رہے ہیں لیکن وہ سبھی کام پاک فوج کروا رہی ہے لیکن جب وہاں کے نمائندہ اسمبلیوں میں موجود ہونگے تو وہ علاقے کی روایات کو مدنظر رکھ کر اپنے ووٹرز کے لئے بہتر انداز میں کام کریں گے ۔فاٹا میں اسلحے کی صنعت بڑی مضبوط ہے گو حکومت نے اس صنعت کو فروغ دینے کے لئے باقاعدہ اس کی منظوری دے دی ہے لیکن حکومتی سرپرستی اس صنعت کو مزید چار چاند لگا سکتی ہے۔ اس لئے حکومت باقاعدہ اس کی مدد کرے تاکہ قبائلی عوام اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے باجوڑ کے عوام کے لئے 2ارب روپے کے ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے۔ یقینی طور پر اگر یہ رقم اس علاقے پر خرچ ہو تی ہے تو وہاں پر خوشحالی آئے گی۔ اسی طرح قبائلی عوام کو ملک کے دیگر عوام کے برابر سہولیات فراہم کرنے کے لئے تھری جی اور فور جی سروس کی بحالی کا بھی اعلان کیا ہے۔ باجوڑ میں فاٹا یونیورسٹی کیمپس کے قیام سے وہاں کے طلباء کو تعلیم کے لئے دور دراز کے علاقوں میں نہیں جانا پڑے گا۔ وہاں کے ہنر مند نوجوانوں کے لیے حکومت چھوٹی صنعتوں کے زون بنائے۔ بے روزگار نوجوانوں کے لئے آسان شرائط پر قرضے شروع کئے جائیں لیکن سب سے بڑھ کر فنڈز کی تقسیم کو منصفانہ بنانا بہت ضروری ہے۔ قبائلی علاقے ایک عرصے سے ملک کے دیگر عوام کے لئے نوگو ایریا ز رہے ہیں۔ لیکن یہ علاقے خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ حکومت اگر اس علاقے کی ترقی پر توجہ دے تو سیاحت کاشعبہ ہی قبائل کی کایا پلٹ سکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر حکومت نے قبائلیوں کی ترقی پر توجہ نہ دی تو احساس محرومی کے مارے افراد پھر دہشت گردوں کا آلہ بن سکتے ہیں۔ اس لئے حکومت کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ قبائلی علاقہ جات میں برق رفتاری سے ترقیاتی کام کرائے ۔سرتاج عزیز کمیٹی نے اس علاقے کی فلاح و بہبود اور قبائلی عوام کی بہتری کے لئے جو روڈ میپ تیار کیا تھا اسے نظر انداز مت کریں کیونکہ اس کمیٹی کی سفارشات کو قبائلیوں نے بھی مستحسن قرار دیا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان خیبر پی کے حکومت کو بھی اس بارے متحرک کریںکیونکہ قبائلی علاقہ جات کے امن اور خوشحالی سے ہی پورے ملک کی معیشت نتھی ہے۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی ‘ سستی اورکاہلی ہمیں دوبارہ بدامنی کی جانب دھکیل سکتی ہے۔