پاکستانی معاشرہ کی ایک بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہاں قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت غالب ہے اور نسلی‘ لسانی تشخص سیاست کا رُخ متعین کرنے میںاہم کردار ادا کرتا ہے۔ملک میں جدید ‘ مغربی اقدار اور طرز زندگی سے متاثر ایک شہری طبقہ ہے لیکن چھوٹی سی اقلیت میں۔ ایک ایسے بنیادی طور پر قبائلی معاشرہ میں ہم تہتر سال سے صنعتی طور پر ترقی یافتہ اورجدید شہری‘ سیکولر معاشرت کے حامل برطانیہ کانظام سیاست اور حکومت رائج کرنے کی ناکام کوششیں کرتے آرہے ہیں۔ کسی بھی ملک میں سیاست اس معاشرہ کی معاشرت اور ثقافت سے گہرے طور پر جڑی ہوتی ہے۔ جو سیاسی نظام کسی معاشرہ کے لوگوں کی غالب بنیادی اقدار‘ روایات اور طرز زندگی سے میل نہ کھاتا ہو اسکا اس سماج میںکامیاب ہونا ممکن نہیں۔ اسکی ایک واضح مثال پاکستان ہے۔ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان تو سراسر قبائلی سماج ہیں۔ سندھ کے کئی علاقے اور جنوبی پنجاب میں ڈیر ہ غازی خان ‘ میانوالی اور ان سے متصل کئی علاقے قبائلی معاشرت کے حامل ہیں۔ قبیلہ بنیادی سماجی اکائی ہے۔ قبیلہ کا تشخص سب سے اہم ہے۔ قبائلی رسم و رواج اور روایات میں جکڑے ہوئے ہیں۔ سندھ اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں جاگیردارانہ معاشرت ہے۔ جو لوگ خود بڑے زمیندار نہیں وہ بھی اپنے مزاج اور اقدار میں جاگیردارانہ اقدار پر ہی عمل کرتے ہیں۔ وسطی پنجاب اور چند بڑے شہروں میں بڑی زمینداریاں نہیں ہیں لیکن لوگوں کا رہن سہن‘ اقدارجاگیردارانہ طرز زندگی کا عکاس ہے۔ قبیلہ کی جگہ برادری بنیادی معاشرتی اکائی ہے۔ رشتہ داری نظام بہت مضبوط ہے۔ ہمارے معاشرہ میں لوگوں کی بنیادی وفاداری رشتے داری نظام سے ہے۔ بعض صورتوں میں لوگ مذہب کو نظر انداز کرسکتے ہیں لیکن رشتے داری نظام کے تقاضوں کو نہیں۔شادی بیاہ ‘ مرنے جینے کی پُرتعیش رسموں میں مذہب سے زیادہ قبائلی اور برادری کی روایا ت کی پاسداری نظر آتی ہے۔ حالانکہ اسلام تو سادگی کا درس دیتا ہے۔ یہ رسم و روایات اسکی تعلیمات کے بالکل برعکس ہیں۔چاروں طرف رائج سفارش کی بنیاد بھی اسی قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کا شاخسانہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت ہندوستان سے ہجرت کرکے جو لوگ مختلف شہروں سے آئے تھے وہ کوئی مخصوص نسلی تشخص نہیں رکھتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی تک یہ لوگ پاکستانی قومیت کی بنیاد پر زور دیتے رہے لیکن ایوب خان کے دورِ حکومت میںکراچی کی ایک آبادی پرسرکاری سرپرستی میں ہونے والے پختونوں کے حملہ کے بعد ان میں اپنی علیحدہ شناخت کااحساس بیدار ہونا شروع ہوا۔پیپلزپارٹی کے دور میں سندھی نسلی عصبیت نے مہاجروں کو بھی قبائلی طرز پرمتحد ہو کر مہاجر شناخت اختیار کرنے پر مجبور کردیا گو اسکی بنیادلسانی تھی۔ آج بھی سندھی سیاستدانوں پر مشتمل پیپلزپارٹی مہاجروں کے بڑے شہر کراچی سے جو سلوک کررہی ہے وہ پاکستان میں قبائلی‘ نسلی تشخص کے غلبہ کی ایک بڑی مثال ہے۔ میرٹ‘ قانون کو نظر انداز کرکے رشتے داروں ‘ برادری والوں اور قبیلہ کے افراد کے فائدے کے لیے سفارش کرنے کا چلن عام ہے۔ ہمارے ہاں قانون ثانوی چیز ہے۔اصل بات یہ ہے کہ اگر میں آپ کو جانتا ہوں تو آپکی بات ٹھیک ہے‘ کام ہوسکتا ہے۔ اگر میں آپ کو نہیں جانتا تو آپکی بات مشکوک ہے اور کام ہونا مشکل ہے۔ البتہ سرمایہ داری نظام کے اثرات نے یہ فرق ضرور ڈالا ہے کہ اب دولت بھی ان روایتی بندھنوں اور وفاداریوںکی جگہ لے سکتی ہے۔ اگر آپ کا تعلق میری برادری یا قبیلہ سے نہیں تو آپ نوٹ دے کر اپنا کام آسانی سے کراسکتے ہیں۔ خاص طور سے شہروں میں۔ قبائلی اور جاگیردارانہ رشتے کمزور ہورہے ہیں لیکن ابھی تک مجموعی طور پروہی غالب ہیں۔ ان رشتوں کو کسی جدید نظریہ ‘ متبادل اقدار یا قانون کی حکمرانی نے کمزور نہیں کیا ہے بلکہ مادی مفادات اور دولت کی خواہش نے ان میں دراڑ ڈالی ہے۔ اسلئیے قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کے بعدہمارے معاشرہ کا سب سے اہم وصف ہر جائزیا ناجائز طریقہ سے دولت کا حصول ہے۔رشوت خوری قبائلی تعلق کو قدرے کمزور کررہی ہے۔ حالت تو یہ ہے کہ ہمارے صنعتی اور تجارتی شعبہ میں بھی قبائلی تشخص نمایاں طور پر موجود ہے جیسے میمن برادری ‘ پنجابی سوداگران‘ چنیوٹی شیخ‘ نارووالی شیخ‘ ٹرانسپورٹ پر چھائے ہزارہ اور پختون قبائل وغیرہ وغیرہ۔ ان ٹھوس سماجی حقائق کے تناظر میں پاکستان کے آئین اور سیاسی نظام کو دیکھیے جوبرطانیہ کی نقل میں بنایا گیا ہے کیونکہ برطانیہ نے یہاں ڈیڑھ سو سال حکومت کی ہے وہ اپنا ورثہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ ہمارے تعلیم یافتہ طبقہ کی پرورش ان کے ہاتھوں میں ہوئی ہے۔ ہم نے ان کے دیے ہوئے فریم ورک سے آگے سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ مثلاًبرطانیہ میں الیکشن کا حلقہ جاتی نظام رائج ہے اور جو امیدوار سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیتا ہے وہ کامیاب ٹھہرتا ہے۔ ہم نے بھی یہی نظام اختیار کرلیا۔انڈیا نے بھی۔ برطانیہ میں تو کوئی قبیلہ اور برادری کی بنیاد پر ووٹ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ نسلی عصبیت وہاں موجود نہیں۔ ہمارے ملک میں کسی بلوچ قبیلہ کے علاقہ سے کوئی پنجابی یا اردو بولنے والا جیت کر دکھائے۔پنجاب میں جاٹ‘ آرائیں ‘ اعوان اور راجپوت برادریا ں انتخابی نتائج کا تعین کرتی ہیں۔ آج تک اندرون سندھ کے عوام نے کسی پنجاب کے لیڈر کی پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیے۔مہمند ایجنسی سے کوئی سندھی یا پنجابی فتح یاب ہوسکتا ہے؟ نہیں۔ تو ایسے معاشرہ میں حلقہ جاتی نظام قبائلی‘ نسلی تعصبات کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتا ہے۔ ایک انتخابی حلقہ کے اندر بھی لوگوں کی بڑی تعداد قبائلی اور برادری کی بنیاد پر ووٹ ڈالتی ہے۔ یہ جو نام نہاد الیکٹ ایبلز ہیں انکی بنیادی طاقت قبیلہ یا برادری ہے۔ کچھ ووٹ کسی پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر بھی ڈالے جاتے ہیںاور پارٹیاں زیادہ تر صوبائی نسلی‘ لسانی تعصب کی بنیاد پر قائم ہیں۔موجودہ نظام نے ہماری پسماندگی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ ملک میں اقربا پروری‘ سفارش کو فروغ دیا ہے۔ اس دستور کے ہوتے ہوئے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم نہیں ہوسکتی ۔ میرٹ اور انصاف رائج نہیں ہوسکتا۔ ملک میں طرز حکمرانی میں متعدد خرابیوں کی جڑ یہ حلقہ جاتی نظام ہے۔اس نظام میں سب سے زیادہ نقصان اعلیٰ تعلیم یافتہ‘ شہری متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ہورہا ہے۔ ان کی ایک بڑی تعداد ہر برس ملک سے ہجرت کر جاتی ہے حالانکہ یہ ملک کی دولت ‘ سرمایہ ہیں۔ اس سیاسی‘ انتخابی نظام کے بارے میں ملک میں ایک بحث مباحثہ ہونا چاہیے کہ ہم موجودہ نظام کی جگہ کوئی بہتر سیاسی نظام اختیار کریں ۔ ہمیں جزوی یا کلی طور پر متناسب نمائندگی کا نظام اختیار کرنے پربھی غور کرنا چاہیے جس میں ہر صوبہ کو ایک حلقہ بنا کر ہر پارٹی کو اسکے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے اسمبلی میں سیٹیں دے دی جائیں۔اس طریقہ سے قبائلی اور برادری نظام کی سیاست اور حکومت میں اہمیت کلّی طو پر ختم تو نہیں ہوگی لیکن کم ضرور ہوجائے گی۔