دوست احمد فراز کے فرزند شبلی فراز کے وفاقی وزیر کا حلف اٹھانے پر نہایت خوشی بھی ہوئی اور ان کے والد کی شدت سے یاد آئی۔ معلوم نہیں فراز زندہ ہوتے تو خوش ہوتے یا بیزار کیونکہ وہ ایک عوامی اور عظیم شاعر تھے ہی مگر ایک حساس اور عام انسان اور اچھے دوست بھی تھے مگر سچی بات کرتے ہوئے گھبراتے نہ تھے اور اس کی سزا بھی کافی بھگتی۔ میرا احمد فراز کے ساتھ پشاور میں بہت جلنا تھا کیونکہ اکثر ہم لوگ ہر اہم جگہ پر موجود ہوتے تھے۔میں پشاور میں خبر رساں ایجنسی پی پی آئی کا واحد نمائندہ تھا اور 70کی دہائی کے اوائل میں فراز بھی پشاور میں پاکستان سینٹر جو اسی وزارت کے ما تحت تھا جس کے شبلی فراز اب وزیر ہیں، پشاور کے ڈائریکٹر تھے۔ اس نسبت سے ان سے کافی گپ شپ ہوتی تھی اور ہمارے تیسرے دوست مرحوم یوسف لودھی جو مشہور کارٹونسٹ وائی ایل کے نام سے ہر لیڈر اور اچھے برے کی ایسی تیسی کرتے تھے ان کا پرنٹنگ پریس ہوتا تھا جو پشاور میں صدر روڈ پر واقع تھا سپین زر پریس کے نام سے۔ اکثر محفلیں ہوتیں اور خوب ہوتیں۔ مگر تین واقعات لکھنا ضروری ہیں جو فراز کے بارے میں بہت کچھ بتاتے ہیں۔ شبلی فراز سے میں کبھی نہیں ملا نہ ہی ان کے دو اور بھائیوں سے مگر وہ شاید یہ عام سے قصے سن کر خوش نہ ہوں یا ہو سکتا ہے ان کی نظروں میں والد کی عزت اور بڑھ جائے۔ پہلا قصہ یوں ہوا کہ فراز اکثر دوپہر کو وائی ایل کے پریس آ جاتے تھے جو ان کے دفتر سے کوئی صرف 100گز دور تھا۔ پریس میں سیاست، شرارت، صحافت اور ہر طرح کی ضیافت کا انتظام ہوتا تھا۔ میرے گھر سے کوئی پانچ منٹ دور یہ محفل سجتی تھی اور دفتر جاتے ہوئے میں بھی شامل ہو جاتا تھا۔ وائی ایل ایک ہفت روزہ نکالتے تھے اور اس میں کارٹون ایسے ہوتے تھے کہ ذوالفقار بھٹو، جنرل یحییٰ، ولی خان اور سب چیختے چلاتے تھے۔ یہ 1971ء سے 1974ء تک کا دور تھا۔ سو ایک دن دوپہر کا کھانا سب نے کھایا اور فراز جو خاص کافی پیتے تھے تو وہ بھی کافی موجود تھی اچانک پروگرام بنا کر باڑہ بازار چلا جائے وہاں سے کچھ سمگل شدہ سامان لایا جائے، سگریٹ وغیرہ۔ وائی ایل کے پاس لندن سے منگوائی ہوئی ایک قیمتی گاڑی تھی جو پورے پشاور میں مشہور تھی اور وہ کسی کو اس گاڑی کو چلانے نہیں دیتے تھے مگر کیونکہ فراز موڈ میں تھے اور اَڑ گئے کہ وہ چلائیں گے۔ اب انہیں کون روکتا سو ہم تینوں چل پڑے۔ گاڑی چلانے کا ایسا مزہ آیا کہ پتلی سڑکوں پر اڑنے لگی اور ہماری چیخیں نکل نکل کر تھک رہی تھیں۔ کبھی ایک بس سے ٹکرانے سے بچتے کوئی ٹانگہ زد میں آنے لگتا۔ کوئی 10-12میل کا سفر تھا اور باڑہ بازار قبائلی علاقے میں آتا تھا۔ دعائیں کرتے کرتے قریب پہنچے تو سڑک کے کنارے 3قبائلی بندوقیں اٹھائے جا رہے تھے اور سامنے سے پتلی سڑک پر تیز بس آ رہی تھی۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہماری گاڑی ایک شخص کو اڑاتے ہوئے نکل گئی۔ وہ شخص دور جا کر گرا بندوق کہیں گئی اور پگڑی دوسری طرف فراز گھبرائے نہیں اور چلتے رہے اور کوئی ایک میل بعد ایک فوجی کیمپ نظر آیا اور گاڑی اندر موڑ لی۔ گیٹ کھلوایا اور ہم اندر چلے گئے جہاں ایک میجر صاحب بیٹھے تھے۔ ہمارے پیچھے زخمی شخص کو لے کر قبائلی بس میں بندوقیں تانے پہنچ گئے اور شور مچا دیا کہ ڈرائیور کو حوالے کرو۔ میجر صاحب ہمیں پہچان گئے اور صورتحال کو بھی بھانپ لیا کہ مسئلہ بگڑ سکتا ہے۔ زخمی کی حالت خراب تھی اور بندوقوں والوں کا غصہ بھی عروج پر تھا۔ ہنگامی حالات میں فوج ہی کام آتی ہے۔ ذہین میجر صاحب نے فوراً صورتحال کو قابو میں لیا۔ چھ سات فوجیوں کے ساتھ باہر گئے اور چار پانچ قبائلی لوگوں کو اندر لے آئے اور کہا کہ فوجی ڈرائیور گھبرا گیا تھا مگر ہم زخمی کو فوراً ہسپتال لے جاتے ہیں اور سارا خرچہ ہم کریں گے۔ آپ زیادہ غصہ نہ کریں اور زخمی کی پوری مدد کی جائے گی۔ ظاہر ہے فوج کے سامنے کچھ غصہ کم ہوا تو فراز اور ہم سب کی جان میں جان آئی۔ اب فراز بولے میں خود اپنی گاڑی میں زخمی کو ہسپتال لے جائوں گا۔ وائی ایل کے کان سے دھواں نکلنے لگا مگر فراز کو کون روکے۔ فوراً زخمی کو لندن والی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر لٹایا۔ میجر صاحب سے اجازت لی اور شکریہ ادا کیا اور وائی ایل کو آگے بٹھا کر پھر گاڑی فراٹے بھرنے لگی کیونکہ جگہ تھی ہی نہیں میں نے بس میں واپس لوٹنے میں خیریت سمجھی۔بعد میں معلوم ہوا زخمی کا پورا علاج انہوں نے کرایا وہ ٹھیک ہو گیا اور سب کی جان بچی۔ دوبارہ کبھی موقع نہیں ملا ورنہ میں فراز کے ساتھ گاڑی میں نہ بیٹھتا۔ یہ واقعہ گزر گیا اور ہماری محفلیں پھر واپس آ گئیں۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد پھر ایک ہنگامہ ہو گیا اور اس دفعہ فراز کے ساتھ میں بھی پوری طرح شامل تھا۔ ہوا یوں کہ بھٹو صاحب کی حکومت تھی اور مولانا کوثر نیازی اس کرسی وزارت پر براجمان تھے جہاں آج فراز کے فرزند بیٹھے ہیں۔ پشاور کے مشہور شاعر ادیب اور پروفیسر خاطرغزنوی نے جو فراز کے دوست بھی تھے اور شاعری کے رقیب بھی، ایک کتاب لکھی جس میں پاکستانی شاعروں کی وہ نظمیں اور غزلیں اور تصانیف اکٹھی کی گئیں جو انہوں نے اپنے ملک کے جنگی قیدیوں کے بارے میں لکھی تھیں ہمارے قیدی شاید ابھی بھارت میں ہی تھے۔ یہ مجموعہ پشاور میں شائع ہوا اور اس کی تقریب پاکستان سینٹر میں منعقد ہوئی جس کے ڈائریکٹر احمد فراز تھے۔ خود فراز نے بھی انتہائی عمدہ شاعری کی تھی اور ان کے اطلاعات کے وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی نے بھی قلم آزمائی کی تھی۔ کتاب کی تقریب جاری تھی اور مولانا کوثر نیازی بھی موجود تھے اور ظاہر ہے صدارت بھی کر رہے تھے۔ احمد فراز کو بھی اظہار خیال کرنے کا موقع دیا گیا اور کیونکہ وہ کافی کڑوی کافی پی چکے تھے۔ انہوں نے شروع ہی یہاں سے کیا کہ یہ کتاب ’’خوشامد کا پلندہ ہے‘‘ اور بجائے شاعروں کے وزیروں کو ترجیح دی گئی ہے کیونکہ کتاب میں مولانا کوثر نیازی کی نظم شروع کے صفحات میں شائع کی گئی تھی اور فراز کی بعد میں۔ کچھ لوگوں نے برا محسوس کیا مگر بات وہیں دبا دی گئی۔ اب یہاں میرا کام شروع ہوا۔ میں نے پی پی آئی میں یہ خبر چلا دی کہ وزیر کے سامنے ان کو ان کے ہی ایک افسر نے کھری کھری سنا دیں۔ خبر فوراً مولانا کو پہنچ گئی اور آرڈر آ گیا کہ کوئی اخبار یہ خبر نہیں چھاپے گا۔ اس آرڈر کو پریس ایڈوائس کہتے تھے۔ صبح تمام اخبار خبر گول کر گئے مگر ایک بھٹو کے مخالف اور مولانا کوثر نیازی کے خاص مہربان اخبار نے وہ خبر چھاپ دی بس فوراً ہی وزارت اطلاعات سے آرڈر آئے کہ احمد فراز کو وزیر نے معطل کر دیا ہے اور میرے مالکان سے کہا گیا کہ مجھے فوراً برطرف کریں۔ پی پی آئی کو جناب معظم علی چلاتے تھے اور احمد حسن صاحب اسلام آباد میں انچارج تھے۔ میں پی پی آئی کا لاڈلا رپورٹر تھا کیونکہ اکیلا پورے صوبہ سرحد کے تمام بڑے بڑے لیڈروں اور سیاسی پارٹیوں کو کور کرتا تھا۔ ان لیڈروں میں خان عبدالغفار خان، ولی خان، عبدالقیوم خان، مولانا مفتی محمود، ایئرمارشل اصغر خان، مولانا ہزاروی، حیات خان شیر پائو، خود بھٹو اور کئی اور مجھے ذاتی طور پر جانتے تھے اور خبریں بھی دیتے تھے تو مجھے نکالنا ذرا مشکل کام لگا، سو میرا پنڈی تبادلہ کر دیا گیا۔ یعنی ایک واردات میں احمد فراز کی نوکری سے معطلی اور میرا تبادلہ ہو گیا۔ پھر جب ہم اپنے اڈے پر ملے تو صرف یہ ہی ہو سکا کہ ’’آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں‘‘ مگر مولانا خود زیادہ عہدہ پر قائم نہ رہ سکے اور فراز اور میں آخر میں جیت گئے۔ فراز کو پھر کئی ایوارڈ بھی ملے اور ان کی خدمات کو سراہا گیا مگر میں پنڈی سے اپنی بیگم کے ساتھ جو ایک ڈاکٹر ہیں ملک سے باہر چلا گیا اور 7سال بعد واپس آیا جب بھٹو کی حکومت جا چکی تھی اور بھٹو بھی راہ عدم کا سفر کر چکے تھے۔ تیسرا واقعہ اس قصے سے پہلے ہوا اور وہ ایسے کہ میرا پشاور شہر میں دفتر حبیب ہوٹل کے سامنے والی بلڈنگ میں تھا اور فراز اپنے سارے دوستوں سے ملاقاتیں حبیب ہوٹل میں کرتے تھے۔ کبھی کوئی دوست لیٹ ہو جاتا تو سڑک پار میرے آفس آ جاتے اور قہوہ پینا ضروری تھا گپیں بھی لگتیں۔ پھر ایک بار یوں ہوا کہ ایک دوست بار بار وعدہ کر کے نہیں آیا اور آخر میں نے فراز سے پوچھ لیا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ اچانک ان کے یہ جملے نکلے کہ ’’کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم، میرے لیے نہیں تو زمانے کے لیے آ‘‘ اب مجھے تو سمجھ نہیں آیا مگر شاید یہ جملہ ان کی مشہور زمانہ غزل کا شعر بنا۔ میرا پورا یقین ہے وہ غزل انہوں نے اس واقعہ کے بعد ہی لکھی ہو گی۔ اگر ایسا ہوا تو میری خوش قسمتی ورنہ فراز تو تھے ہی عظیم اور آج ان کے فرزند جس کرسی پر بیٹھے ہیں یہ فراز کا اس نظام اور ان لوگوں سے خاموش انتقام ہے جنہوں نے ان کو سچ بولنے کے الزام میں نوکری سے بے عزت کر کے نکالا تھا۔ آج مولانا کوثر نیازی آسمانوں میں ضرورپشیماں ہوں گے۔