کبھی کبھی میں ایمان و یقین کے حوالے سے بھی کالم لکھ دیتا ہوں تو ایک اور انداز کا فیڈ بیک ملتا ہے اور تو اور مرحومہ رخسانہ نور نے ایک مرتبہ مجھے فون کر کے بتایا تھاکہ وہ صاحب فراش ہیں اور آپ کے ایمان افروز کالم میں عبادت سمجھ کر پڑھتی ہوں۔ اصل میں تو اپنی اصلاح کی یہ ایک کوشش ہوتی ہے۔ وہی جو برنارڈ شاہ نے کہا تھا کہ دنیا کی اصلاح کرنا چاہتے ہو تو سب سے پہلے خود کو بدلو‘ اس طرح یقینا دنیا کے بدمعاشوں میں ایک کمی ضرور ہو جائے گی ہم ان چیزوں پر غور نہیں کرتے۔ ابوالکلام آزاد نے ایک مرتبہ کہا کہ جب میں کسی دوست کو ناراض کرتا ہوں تو گویا اپنی قدر کرنے والوں میں ایک کی کمی کرلیتا ہوں۔ ہمارا سارا دھیان اپنی عزت و توقیر کی طرف ہوتا ہے اور یہ عزت و توقیر بھی وہ ہے جسے دنیا تصور کرتی ہے وگرنہ تو محمد علی جوہر جیسا شخص ڈیلی گیٹس کے طعام میں ہاتھ سے لقمہ گرنے پر اسے جھاڑ کر کھا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا میں ان لوگوں کے لئے اپنے پیارے نبی کریم ؐ کی سنت چھوڑ دوں۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ عزت والا تو وہ شخص ہے جو دوسروں کی عزت نفس کا خیال کرتا ہے کہ وہ دوسروں کا خیال رکھتا ہے اور پھر اس تعریف پر خود بخود پورا اترتا ہے کہ تم میں سے جو مومن ہے وہ دوسرے بھائی کے لئے وہی پسند کرتا ہے جو اپنے لئے۔ میرے معزز قارئین ! ہم نے قرآن کی تفسیر باردگر شروع کی تو تفہیم کے در ذر ابہتر انداز میں وا ہونے لگے‘ میں نے سوچا ایک دو باتوں میں آپ کو بھی شریک کرلوں کہ بسم اللہ سے قرآن پاک کا آغازہوا تو ہم بسمہ اللہ کا ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے ‘یہ شروع کرتا ہوں کدھر سے آ گیا۔ تو پتہ چلا کہ جناب کلام میں کچھ ’’ماقبل ‘‘اور کچھ ’’مابعد ‘‘ہوتا ہے۔ یہاں ماقبل اصل میں اشراع ہے یعنی یہ لفظ شروع سے ہے۔ گویا شروع اللہ کے نام سے اور اگر فعل استعمال ہو تو پھر شروع کرتا ہوں۔ ایک اور بات دلچسپ تھی کہ قرآن پاک الف سے کیوں شروع نہیں ہوا بے ‘ یا با سے کیوں! بتایا گیا کہ شاہ عبدالعزیز نے اس نکتہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ الف میں بلندی ‘سعود اور الفت ہے اس لئے بے کو منتخب کیا گیا کہ اس میں ایک انکساری ہے بات تو دل کو لگتی ہے کہ قاری ہی نے بسم اللہ پڑھنی ہے اور پڑھنی بھی اللہ کے سامنے ہے اس کی حمدو پا کی بیان کرتی ہے جو رحمن اور رحیم ہے۔ اس سٹیج پر پہنچنے کے لئے اعوذ باللہ پڑھتے ہیں تاکہ شیطان سے اللہ کی پناہ میں آ جائیں۔ مولانا حمید حسین صاحب نے تو ایک ایک لفظ اور ایک ایک آیت پر پورا لیکچر دے دیا مگر میں تو خوشہ چینی کرتے ہوئے آگے نکل رہا ہوں کہ کچھ نکات اپنے قارئین کے ساتھ سانجھے کر سکوں۔ اللہ کا کلام بہت توجہ اور یکسوئی مانگتا ہے تب کہیں جا کر اس کے رموزکھلتے ہیں کہ اس کی آیات کے الفاظ کیسے آپس میں گندھے ہوئے ہیں کیوں نہ ہوں کہ یہ الہام منزل من اللہ ہے ۔ جہاں غلطی کی گنجائش سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہنر کی معراج اور علوم کا خزانہ ‘کوئی طالب ہو تو قرآن اپنی آغوش وا کر دیتا ہے ۔ ہر شخص اپنی بساط کے مطابق اس بحر بے کراں کے موتی اور مرجان سمیٹتا ہے عالم رنگ و بو جو کہ اسباب کا جہان ہے فانی ہے کہ بقا حرف خالق و مالک کو ہے۔ جب ہم الحمد سے شروع کرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ حمد کو الف اور لام نے مخصوص کر دیا ہے کہ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔ میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ حمد ‘مدح اور شکر میں کیا فرق ہے۔یہ پہلی اور آخری حقیقت ہے کہ اللہ ہی کے لئے سب توصیف و تعریف ہے دوسرا یہ کہ ہم سراپا تشکر اور محبت سے مامور یہ بیان کر رہے ہیں یہی بات آپ یوں سمجھ سکتے ہیں کہ قال اور حال دو مختلف کیفیتیں ہیں۔ قال تو آپ نے کہہ دیا اور حال وہ کیفیت ہے کہ آپ کا جذبہ مجسم ہو گیا آپ کا کہنا عمل میں ڈھل گیا۔ اس حال کی مثال یوں سمجھ لیں کہ پانی کی ایک حالت یعنی حال ہے جب یہ منجمد ہو کر برف بن جاتا ہے تو اس کا حال بدل جاتا ہے آپ اسے پانی نہیں بلکہ برف کہیں گے اسی طرح جب یہ بھاپ بنے گا تو اس کا حال بدل کر اور ہو جائے گا یہ وہی بات ہے کہ ’’مرے حال دا محرم تو‘‘ اس کی دہلیز پر جبیں رکھ دی یعنی خود کو فلک مقام کیا اصل میں بات یہ ہو رہی تھی کہ پورے قرآن کا خلاصہ سورۃ فاتحہ میں ہے اور سورۃ فاتحہ کا نچوڑ بسم اللہ الرحمن الرحیم میں ہے۔ پھر کہا گیا کہ بسم اللہ سمٹ کر ب (بے) میں آ گئی ہے پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم میں رحمن اور رحیم کے الفاظ مبالغ کے صیغے ہیں مگر یہ تو بات سمجھانے کے لئے ہے وگرنہ اللہ کے حوالے سے کیا مبالغہ کہ اس سے آگے تو کچھ ہے ہی نہیں اور نہ اس سے پہلے کچھ تھا انگریزی میں ’’ Almighty‘‘اور’’ Alseeing‘‘جیسے الفاظ معنی کا احاطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ رحمن کا لفظ عموم پر ہے تبھی تو وہ رب العالمین ہے مگر کچھ کہنے والے کہتے ہیں کہ روزجزا میں یہی صفت خصوص میں چلی جائے گی۔ رحیم تو ایک ہمیشگی کی کیفیت میں رحمت ہے۔ لفظ لفظ میں یہاں ایسا پھیلائو ہے کہ بندہ دنگ رہ جاتا ہے کبھی کبھی میں بحیثیت شاعر کلام اللہ میں قافیہ آرائی ترنم اور پھر خود ہی اس سے خوبصورت انحراف کو دیکھتا ہوں۔ بات تو سمجھ بھی آتی ہے کہ اگر قرآن و سنت پر عمل کر کے ایک خاص طرح کی عبادات یا معاشرت مراد ہوتی تو گوہر ہجرت کے کیا معنی تھے‘ لوگ گھر سے بے گھر کیوں ہوتے اپنی ساری متاع کیوں چھوڑ دی اورپھر کربلا کیوں برپا ہوئی۔ دین میں ایک تحرک ہے اور عمل اور اللہ کی حاکمیت قائم کرنے والی بات ہے ۔