خواجہ آصف نے فرمایا ہے‘ ہم حکومت گرانا نہیں چاہتے۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ اسے لانے والے اپنا شوق پورا کر لیں۔ شوق کتنے عرصے میں پورا ہو جایا کرتا ہے ‘ اس بارے میں کوئی باقاعدہ سے اصول تو نہیں ہے لیکن بعض اشارے ایسے ضرور مل جاتے ہیں جن سے اندازہ لگانے والے اندازہ لگا لیا کرتے ہیں کہ شوق پورا ہو گیا ہے یا پورا ہونے والا ہے۔ حسن اتفاق سے انہی دنوں شاہی دربار کے دو مستقل اور جید قصیدہ نگاروں کی کچھ ایسی نوحہ خوانی سامنے آئی ہے جس سے شوق پورا ہونے کے مدھم سے آثار کی جھلک ملتی ہے۔ یہاں ازروئے وضاحت عرض ہے کہ شاہی دربار سے مراد بنی گالہ کا ایوان ہرگز نہیں ہے کہ یہ یا ایسے ایوان تو محض عارضی چوکی ہوا کرتے ہیں۔ مراد اس دربار سے ہے جو سدا بہار ہے جہاں سے ہر قسم کے آثار نمودار ہوا کرتے ہیں۔ ایک قصیدہ نگار نے حکمرانوں کو بشمول گروجی نالائق‘ بدنیت‘ نکما قرار دے دیا ہے اور پوچھا ہے کہ کچھ کرنے کی صلاحیت نہیں تو چلے کیوں نہیں جاتے۔ دوسرے قصیدہ نگار نے فرمایا ہے کہ سارے ملک کا کچرا اکٹھا ہو کے حکومت اور حکمران جماعت بن گیا ہے۔ ع چاندنی سمٹ کے بدن تیرا بن گئی ٭٭٭٭٭ یاد ہو گا‘ یہ دونوں اور ان کی ہمراہی میں کئی دوسرے قصیدہ نگار پانچ سال سے قوم کو یہ باور کراتے آئے ہیں کہ ملک کے سارے لعل و جواہر‘ ہیرے اور نگینے اکٹھے ہوئے تو پی ٹی آئی بنی اور ان سارے ہیرے جواہرات میں خاں صاحب کا درجہ کوہ نور ہیرے کا ہے۔ اب کیا ہوا کہ پانچواں لگتے ہی بلکہ چھٹے کے آتے آتے ان سب پر آشکار ہوا کہ انہیں دھوکہ ہوا۔ جسے وہ جوہری بازار سمجھے تھے‘ وہ تو کچرا کنڈی ہے۔ یعنی جسے بدخشانی زعفران سمجھے تھے‘ وہ خراسان کی گھاس نکلی۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ نے بھی ہفتہ بھر پہلے ایسی ہی بات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں کچرے سے بجلی بناتے ہیں‘ ہمارے ہاں کچرے سے حکومت بنا دی گئی۔ چلئے بجلی نہ سہی‘ حکومت سہی۔ ہم نے یہ ثابت تو کیا کہ ہم بڑے سائنس دان ہیں۔ کچرے سے بجلی تو ساری دنیا بنا لیتی ہے‘ اس سے حکومت برآمد کرنا بس ہماری ہی صلاحیت کا کرشمہ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ حکومت آتے ہی بجلی کو چوس گئی‘ معیشت کو چبا گئی۔ ٭٭٭٭٭ بحث کچرے کی طرف نکل گئی۔ سوال زیر بحث یہ تھا کہ مرغانِ بادنما کی نوائے تلخ کیا اشارہ دیتی ہے؟ یہ سوال ایک سیانے سے کیا تو جواب ملا‘ اشارہ یہی کہ سیاستدانوں کی ناکامی کا اعلان ہو گا۔ پھر گنبد چہار در سے مدھم سی صدا بلند ہو گی کہ میں آئوں؟ میں آئوں اور قصیدہ نگاروں کی پلٹن جواب دے گی‘ پدھارئیے حضور‘ سیاستدانوں نے تو بیڑا غرق کر دیا۔ سیانے کی بات سے اختلاف ممکن نہیں تھا‘ پھر بھی سوالیہ اعتراض جڑ دیا کہ جناب‘ کچرا کنڈی کی ناکامی کو سیاستدانوں کی ناکامی قرار دینا کچھ بے انصافی نہیں ہو گی؟ ٭٭٭٭٭ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ کابینہ میں شامل لوگوں پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات ہیں مگر کوئی کارروائی نہیں ہو رہی۔ کارروائی نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے حضور کہ یہ کرپشن جائز اور حلال ذرائع سے کی گئی ہے۔ ’’حلال‘‘ کرپشن پر آپ کا اعتراض بنتا نہیں ہے جناب۔ صرف حرام کرپشن کے خلاف بات کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ نیب آپ کے خلاف بھی آمدنی سے زیادہ اثاثوں کا کیس کھول دے۔ ٭٭٭٭٭ نیب سے یاد آیا‘ ان دنوں وزیر اعظم پر ہیلی کاپٹر کیس کے حوالے سے حکومت کے بعض زعما نے نیب پر تنقید کی ہے جس سے کچھ لوگوں نے یہ تاثر لیا کہ نیب اور حکومت کے درمیان کچھ شکر رنجی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ تاثر ٹھیک نہیں۔ حکومت اور نیب میں کوئی شکر رنجی نہیں ہے۔ در حقیقت دونوں باہم شیرو شکر ہیں۔ مطلب یہ کہ نیب شکر ہے تو حکومت شیر‘ نیب نہ ہو تو شیر یعنی دودھ پھیکا پڑ جائے۔شکر رنجی کا تاثر حکمت عملی کے تحت پیدا کیا گیا۔ دراصل نیب کے بارے میں یہ خیال جڑ پکڑ رہا تھا کہ یہ ادارہ تحریک انصاف کا ’’انتقام ونگ‘‘ ہے‘ بنی گالہ سے آنے والی فرمائشوں کے تحت حرکت میں آتا ہے۔ یہ خیال ٹھیک تھا یا غلط الگ بحث ہے لیکن اس خیال کی عملی تردید ضروری تھی۔چنانچہ صنعت شکر رنجی کے تحت اس خیال کے ازالے کی کوشش کی گئی۔ بس اتنی سی بات ہے۔ ٭٭٭٭٭ چند دن پہلے سندھ کے وزیر منظور وسان نے خواب دیکھا۔ بدقسمتی سے یہ خواب عمران خاں کے خلاف تھا۔ وسان صاحب نے اپنا خواب اخبارات میں چھپوا دیا۔ پھر وہی ہوا جو ہونا تھا۔ خبر آ گئی کہ نیب نے ان کے خلاف تحقیقات شروع کر دی ہے‘ تحقیقات کسی شکایت پر نہیں ہو رہی۔ شکایت تو کسی نے درج کرائی ہی نہیں۔ کیا کوئی سراغ ملا ہے؟ نہیں ایسی اطلاع بھی کہیں نہیں ہے۔ خبر کے مطابق وسان صاحب ہی نہیں‘ ان کے تمام رشتے داروں کے اثاثوں کی تفصیل طلب کر لی گئی ہے۔ اس تفصیل کے تفصیلی معائنے کے تحت کوئی ’’شکایت‘‘ برآمد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ برآمد ہو گئی تو بہت خوب‘ نہ ہو سکی تو پھر بھی کوئی بات نہیں۔ آمدنی سے زیادہ اثاثوں والی شق تو بہرحال ہے ہی۔ جو ہر تالے کی چابی ہے۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ چین کو سی پیک کے متعدد منصوبے بند کرنے کے لئے کہہ دیا گیا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ آنے والے ہفتوں میں اسی سے متعلقہ بہت سے مزید منصوبے بھی بند کئے جا رہے ہیں۔ قسطوں میں موت۔ ایک کتاب کا عنوان تھا۔ سی پیک کی تاریخ کے لئے بھی یہ عنوان مناسب لگتا ہے۔ ذرا سی ترمیم کے ساتھ ’’قسطوں میں نجات‘‘ نام بھی موزوں رہے گا۔ 2014ء سے جو میلہ سجا تھا‘ اس کے مقاصد حصول کی منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ زندہ باد‘ نیاز مندانِ امریکہ پائندہ باد۔