مجلس عمل کے رہنمائوں نے پنڈی کے جلسے میں کہا ہے کہ جو سیاستدان 70 سال سے حکومت کرتے آ رہے ہیں‘ انہوں نے عوام کے مسائل حل نہیں کئے‘ انہیں حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں۔ سچ کہا جی! لیکن یہ کون سے سیاستدان ہیں جو ستر سال سے حکومت کرتے آ رہے ہیں‘ اس کی وضاحت ہو جاتی تو اچھا تھا۔ اس لیے کہ مختصر سی تاریخ پاکستان میں ایسے ستر برس تو کبھی آئے ہی نہیں جن میں سیاستدانوں نے حکومت کی ہو۔ پہلے دوسرے سال تو ایسے تھے جن میں ملک پر قائداعظم اور لیاقت علی خان کی حکومت تھی۔ قائد کی وفات کے بعد قائد ملت کو بھی شہید کردیا گیا اور 1955ء ہی میں سیاستدان بس نام کی حد تک حکومت میں رہ گئے تھے۔ ہر دو قسم کی بیوروکریسی حکومت پر قبضہ کر چکی تھی اور 1958ء میں ایوب خان آ گئے۔ وہ دس سال حکومت کرتے رہے اور جاتے جاتے حکومت اپنے ضمیمے یحییٰ خان کو دے گئے۔ وہ تین سال رہے۔ یوں تیرہ برس ہو گئے۔ بھٹو صاحب کی حکومت آئی تو پاکستان آدھا رہ گیا تھا۔ پانچ سال انہوں نے گزارے‘ پھر جنرل ضیاء الحق آ گئے اور گیارہ سال رہے۔ طیارہ حادثے میں وفات کے بعد بھی ان کی حکومت بدستور باقی رہی کیونکہ عالم بالا کو جانے سے پہلے ضیاء الحق بھی اپنے ضمیمے غلام اسحاق کو حکومت تھما گئے۔ بعد کے پانچ برسوں میں پہلے بے نظیر‘ پھر نوازشریف نے نام کی حکومت کی۔ اصل حکمرانی ضمیمہ صاحب ہی کی تھی۔ دو اسمبلیاں تناول فرمانے کے بعد ضمیمہ خان سے تو جان چھوٹ گئی لیکن حکومت سیاستدانوں کو پھر بھی نہ مل سکی۔ ایک بار پھر بے نظیر اور نوازشریف باری باری حکومت میں آئے لیکن زمام کار کسی اور کے ہاتھ میں رہی۔ یہ تو کوئی زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے۔ پھر جنرل پرویز مشرف نے اسلام آباد پر براستہ کارگل قبضہ کرلیا اور دس سال ملک کو طبلہ سمجھ کر بجایا۔ ان سے نجات ملی تو وہ جمہوریت آئی جو پیدائشی لولی لنگڑی تھی اور آج دس سال کی ہونے کے بعد پہلے سے بھی زیادہ لولی لنگڑی ہو گئی ہے۔ تو تیس بتیس برس براہ راست جرنیلی حکومتیں رہیں اور بیس سال بظاہر سیاسی لیکن در حقیقت کسی اور کی حکومت رہی۔ 1948ء سے 55 تک کے سات برس اور پھر پانچ برس بھٹو کے‘ سیاستدانوں نے کل ملا کر بارہ برس حکومت کی۔ جناب والا‘ بیان تصحیح اور ترمیم کے بعد یوں جاری فرمائیے کہ جو سیاستدان بارہ برس تک عوامی مسئلے حل نہ کرسکے‘ انہیں حکومت میں آنے کا کوئی حق نہیں۔ نیز نام بھی درج فرما دیں۔ اس لیے کہ قائد و لیاقت سے لے کر فیروز خان نون تک‘ پھر بھٹو سے بے نظیر تک کے سارے نام تو مرحومین کے زمرے میں درج ہو چکے‘ ایک نوازشریف رہ گئے جو بڑھاپے کی منزلیں اڈیالہ میں طے کر رہے ہیں اور ساتھ ان کے زرداری۔ پیچھے کون سا اور ہے جسے آپ کے مطابق حکومت میں آنے کا کوئی حق نہیں۔ ٭٭٭٭٭ مجلس عمل کی یہ بات اصولی حد تک برحق ہے کہ سیاسی حکومتیں ناکام رہیں لیکن پتہ نہیں‘ ان میں خود اس کی جماعتوں کی حکومتیں بھی شامل ہیں کہ نہیں جو پہلے صوبہ سرحد میں قائم ہوئی‘ مجلس عمل ہی کے نام سے اور پھر پختونخوا کی وہ مخلوط حکومت جس کا حصہ مجلس عمل کی شریک جماعت اسلامی بھی رہی۔ سیاستدانوں کی ناکامیوں کا ریکارڈ افسوسناک ہے۔ مثلاً وہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے میں ناکام رہے۔ وہ کارگل کو بھارت کے حوالے کرنے میں بھی ناکام رہے‘ انہیں سیاچن کا بے برگ علاقہ بھی بھارت کے منہ پر مارنے کی توفیق نہ ہوئی۔ وہ ایبٹ آباد کی امریکی تسخیر کے اعزاز سے بھی محروم رہے۔ وہ امریکہ کا حق میزبانی بھی نہ ادا کر سکے جو ناچار ایوب خان کو بڈبیر اور مشرف کو شمسی ایئربیس سمیت دیگر شاہرائی و فضائی سہولیات دے کر ادا کرنا پڑا۔ وہ تو پاکستان میں فرقہ وارانہ اور لسانی دہشت گردی کے معمولی سے فریضے بھی انجام نہ دے سکے۔ ایسے سیاستدانوں پر اگر سمجھ دار لوگ ’’تف‘‘ بھیجتے ہیں تو کیا برا کرتے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ عمران خان نے فرمایا ہے کہ انہیں انتخابات میں اپنی کامیابی کا سو فیصد یقین ہے لیکن جنگ بہرحال ابھی جاری ہے۔ ’’یقین‘‘ کے ساتھ لیکن کا لفظ کبھی نہیں لگتا‘ پھر بھی خان صاحب نے لگا دیا ہے۔ بہرحال ’’یقین‘‘ کی وجوہات بھی موجود ہیں اور ’’لیکن‘‘ کا جواز بھی۔ یقین کی وجوہات کیا‘ بس ایک ہی وجہ ہے اور وہ دو روز پہلے ایک تجزیہ نگار نے اپنے تجزیئے میں بیان کردی۔ لکھا کہ خان صاحب کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے کہ انہیں قومی اسمبلی کی 116 سیٹیں دلائی جائیں گی اور مسلم لیگ کو 57 کے عدد سے آگے نہیں بڑھنے دیا جائے گا۔ تو یقین کی وجہ یہ ٹھوس وعدہ ہوگیا۔ ’’لیکن‘‘ کا پس منظر کیا ہے؟ ایک نہیں دو دو پس منظر ہیں۔ 2013ء کے الیکشن میں خان صاحب سے دوتہائی اکثریت دلانے کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یقین نہ آئے تو انتخابات گزشتہ کی مہم میں کی گئی خان صاحب کی تقاریر نکلوا لیجئے۔ درجنوں بار خان صاحب کا یہ فقرہ تحریر اور تقریر‘ دونوں صورتوں میں ملے گا کہ ’’لکھ کر دینے کو تیار ہوں کہ ہم دو تہائی اکثریت کی طرف جا رہے ہیں‘ ہماری لینڈ سلائیڈ وکٹری لکھی جا چکی ہے۔ یہ وعدہ ’’بوجوہ‘‘ پورا نہ کیا جا سکا۔ سنا ہے کیانی صاحب رکاوٹ بن گئے۔ دوسرا پس منظر مشاہد خان صاحب کے ذہن میں ہو یا شاید نہ ہو۔ اس کے لیے ہمیں کم و بیش چار عشرے پیچھے جانا ہوگا یعنی 1969ئ‘ 1970ء کے زمانے میں۔ دور مذکور کے بارے میں بہت کچھ کتابوں‘ رسالوں اور اخباری مضامین میں آ چکا ہے اور جملہ راویان کی روایت ہے کہ 1970ء کے الیکشن میں کرم فرمائوں کا بندوبستی یقین یہ تھا کہ مغربی پاکستان سے کونسل مسلم لیگ سنگل لارجسٹ پارٹی ہوگی‘ دوسرے نمبر پر نورالامین کی جمہوری پارٹی‘ تیسرے نمبر پر جماعت اسلامی نے آنا تھا۔ بھٹو کی پیپلزپارٹی چوتھی بڑی پارٹی بننی تھی۔ مشرقی پاکستان مرحوم میں عوامی لیگ کو 45 سے زیادہ سیٹیں نہیں مل سکتیں‘ یہ کارفرمائوں کا کہنا تھا۔ وہاں واحد اکثریتی پارٹی نورالامین کی پی ڈی پی‘ دوسرے نمبر پر کنونشن لیگ نے ہونا تھا۔ تو قبلہ خان صاحب‘ آپ کا یقین برحق اور لیکن بجا۔ عرض ہے کہ محکمہ موسمیات پر ساری توقعات وابستہ کر کے بیٹھ جانا ٹھیک نہیں۔ پختونخوا میں آپ کے جلسے اچھے جا رہے ہیں لیکن پنجاب میں حاضرین کو کیا ہو گیا ہے۔ محکمہ موسمیات ایک حد تک مدد کرسکتا ہے۔ چالیس ہزار ووٹوں کا گھاٹا فی نشست پُر کرنا اس کے لیے بھی کاردارد ہو گا‘ ہاں بیس بائیس کی کمی ایسا مسئلہ نہیں جس پر قابو پایا جا سکے۔ ٭٭٭٭٭ معاصر اخبار نے اپنے اداریئے (15 جولائی والے) میں یہ خبر بریک کی ہے کہ لندن سے واپسی پر راستے میں نوازشریف نے جب ابوظہبی ایئرپورٹ پر عارضی قیام کیا تو امارات کے حکمران کی طرف سے ایک سربمہر رقعہ انہیں تھمایا گیا۔ جناب شیخ الشیوخ نے اس رقعے میں لکھا تھا‘ آپ یہیں قصر سلطانی میں بسیرا فرمائیے‘ پاکستان جانے کا ارادہ ترک کردیجئے‘ ہم آپ کی میزبانی کر کے خوشی محسوس کریں گے۔ نوازشریف نے یہ محلاتی پیشکش ٹھکرادی۔ مطلب ابوظہبی کے سلطان اب خوشی تو بالکل محسوس نہیں کر رہے ہوں گے۔ کیا واقعی نوازشریف کی پاکستان آمد پر وہ ’’ناخوش‘‘ ہیں یا کوئی اور ہے جو ناخوش ہے؟ ایک کم معتبر ذریعے نے لکھا ہے کہ محلاتی پیشکش کی تائید کرنے والوں میں ترکی بھی شامل ہے۔ اوپر والوں کے راز تو اوپر والے ہی جانیں لیکن نوازشریف نے ایسی ’’مخلصانہ پیشکش‘‘ مسترد کر کے کئی کرم فرمائوں کی دل آزاری ضرور کی ہے۔