میاں عامر شہزاد صدیقی کا حالاتِ حاضرہ پر لکھنے کا اپنا اسلوب اور اپنا انداز ہے ،آپ کی تحریروں میں وطن ، وسیب اوراس میں بسنے والے لوگوں سے ہمدردی کا عنصر جھلکتا ہے ۔ ’’قصہ حروف‘‘ آپ کی نئی کتاب ہے ۔ اس میں بہت سے مضامین شامل ہیں جن میں قومی امور کے ساتھ ساتھ عالمی حالات پر بھی درد مندی کے ساتھ اظہار خیال کیا گیا ہے ۔ ایک مضمون کا عنوان بھارتی جنگی جنون اور کشمیری مسلمانوں پر مظالم کی نئی لہر کے عنوان سے ہے ،موصوف نے بھارتی فورسز کے مظالم کی مذمت کرتے ہوئے بجا طور پر اقوام متحدہ ، بالخصوص اسلامی دنیا کو اپنا کردار ادا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کے مذہبی انتہا پسند کی طرف سے مسجد میں مسلمانوں کے قتل عام کا جو واقعہ ہوا وہ پوری دنیا کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھا ۔ مگر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم محترمہ مادام جیسنڈاکا کردار بھی قابل تعریف تھاجس کی توصیف اور تحسین میاں عامر شہزاد صدیقی نے اپنے کالم ’’عدم برداشت کا بڑھتاہوا رجحان ،امن کیلئے خطرہ‘‘میں کیا ہے ۔ موصوف نے بجا طور پر لکھا کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے نیوزی لینڈ میں ہونے والے خون آشام واقعہ پر نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مادام جیسنڈ کے انتہائی مثبت ردعمل پر انہیں فون کرکے دُکھ کی اس گھڑی میں ساتھ ہونے کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ آپ نے پاکستانیوں کے دل جیت لئے ہیں۔ کہنا یہ چاہئے تھا کہ آپ نے مسلمانوں کے دل جیت لئے ہیں اور یہی سچ ہے۔ میاں عامر شہزاد صدیقی کی کتاب ’’قصہ حروف‘‘ کا ایک کالم ’’ڈومور ! اب آپ کی باری ہے‘‘کے عنوان سے ہے ۔ بجا طور آپ نے لکھا کہ امریکہ کے سابق صدر کی زبانی جوا الفاظ سب سے زیادہ سننے کو ملے وہ ہیں ڈومور… جیسا کہ کبیرا نے کہا ہے ’’ کہ حد حد میں رہے ہر کوئی حد سے باہر نہ جاوے کوئے‘‘۔موصوف نے قومی و عالمی صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے بجا طور پر لکھا کہ پاکستان اپنی جغرافیائی سرحدوں کی وجہ سے دنیا کے لئے اہم ترین ملک ہے ۔ چائنہ ، افغانستان ، انڈیا اور ایران کی سرحدوں کے بیچ پاکستان کی اہمیت سے کوئی بھی انکاری نہیں ۔ چائنہ امریکہ کے لئے ایک چیلنج ہے ۔ ایران کو امریکہ اپنے لئے خطرہ سمجھتا ہے ۔افغانستان اور کشمیر کے مسئلے پر امریکہ کا کردار دوغلا اور دوہرا ہے ۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جہاد افغانستان کے موقع پر غلط فیصلے کے نتیجے میں پاکستان نے دہشت گردی کا جو عذاب بھگتا اس سے سبق حاصل کیا جائے ۔عالمی حالات بدل چکے ہیں پہلے امریکہ اور روس کی شکل میں دو بلاک تھے اب روس کی جگہ چین نے لے لی ہے ۔ چین ہو یا امریکہ سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم ہونے چاہئیں ۔ باوقار ،خودداراورخود مختار قوم کی حیثیت سے ہماری خارجہ پالیسی ہونی چاہئے ۔ ’’قصہ حروف‘‘ کا ایک کالم ’’سانحہ ساہیوال۔ ملزمان کو مثالی سزا کاعندیہ‘‘کے عنوان سے موصوف نے سانحہ ساہیوال کی مذمت کی اور لکھا کہ کیا ہمارا نظام عدل اتنا مضبوط ہے کہ واقعے کے ذمہ داروں کو اسی مقام پر نشانِ عبرت بنا سکیں؟یہ بات ایک سوالیہ نشان کی حیثیت رکھتی تھی ،فیصلے کے بعد اس کا جو جواب ملا ہے وہ نہایت ہی قابل افسوس ہے کہ تمام ملزمان بری ہو چکے ہیں ۔ واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ صاحب مقتول کے زخمی بچے کو گلدستہ پیش کرنے گئے تھے اب وہی گلدستہ مقدمہ کا چالان پیش کرنے والے حکومتی کارندوں کو پیش کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنا ریکارڈ نہیں توڑا میاں عامر شہزاد صدیقی کا ایک کالم آبادی کے عالمی دن کے حوالے سے ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ 19جولائی کو آبادی کا عالمی دن خشوع وخضوع کے ساتھ منایا جاتا ہے مگر آبادی میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ انہوں نے بجا طور پر لکھا کہ بیٹی کو اولاد ہی نہیں سمجھا جاتا ۔بیٹیوں کی تعداد 11تک چلی جائے تب بھی بیٹا پیدا کرنے کا جنون جاری رہتا ہے ۔ میاں عامر شہزاد صدیقی نے اعدادو شماردردمندی کے ساتھ لکھا ہے کہ اس وقت دنیا کی آبادی 7.6ارب کے قریب ہے ، پاکستان میں پہلی مردم شماری جو کہ 1951ء میں ہوئی تھی اس کے مطابق پاکستان کی آبادی 3کروڑ37لاکھ تھی جو اب بڑھ کر 20کروڑ77لاکھ ہو چکی ہے جبکہ ہمارے وسائل ابھی تک شاید 1951ء سے آگے نہیں بڑھے ۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے اور یہاں پر آبادی بڑھنے کی شرح 2.1فیصد ہے۔ میاں عامر شہزاد صدیقی اپنے وسیب کے بارے میں اکثر لکھتے رہتے ہیں ۔ مظفرگڑھ میں ایک المناک حادثہ ہواجس پر موصوف نے بجا طور پر ایک کالم ’’یو این او میں پاکستان کا موقف اور مظفرگڑھ میں بچوں کی جلی نعشیں‘‘کے عنوان سے لکھا ۔موصوف نے بجا طور پر لکھا کہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اقوام متحدہ میں خطاب یقینا تحسین قابل ہے ۔ خصوصاًانکی طرف سے ہالینڈ کی جانب سے مسلسل بے شرمی کے ساتھ حضور اقدسؐ کی شان میں بنائے گئے گستاخانہ خاکوں کی مذمت میں ان کی تقریرنے عالم اسلام میں ان کی قدرو منزلت میں اضافہ کر دیا ہے ۔میاں عامر شہزاد صدیقی نے مظفرگڑھ کے واقعے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے بجا طور لکھا کہ مظفرگڑھ موضع کرم داد قریشی میں ایک سکول وین میں غیر معیاری سلنڈر کے پھٹ جانے سے آگ لگ گئی اور متعدد بچے جل کر کوئلہ ہو گئے کچھ شدید اور کچھ کم جل جانے والے بچے نشتر برن یونٹ میں زیر علاج ہیں جہاں روز ایک حکومتی نمائندہ معائنہ کرتا نظر آتا ہے ۔ ایک ایسا نظر انداز علاقہ جو محرومی کا شکار بھی ہے وہاں اتنا بڑا حادثہ گزر گیا اور کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگی، نہ کوئی بڑی انکوائری اور نہ انکوائری کمیٹی مرتب ہوئی۔ ایک شخص ملتان میں ایسا تھا جو اپنی دھرتی ، اپنی مٹی اور اپنے وسیب سے ٹوٹ کر پیار کرتا تھا ۔ پاکستان اس کے دل میں بستا تھا ۔اس نے زندگی کا بیشتر حصہ بیرون ملک بسر کیا ،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے وطن وسیب سے محبت کرنا جانتا تھا ۔ اس شخص کا نام نصیرہمایوں تھا ،21مئی 2017ء کو حرکت قلب بند ہونے سے ان کا انتقال ہوا تو ملتان میں صف ماتم بچھ گئی ۔ میاں عامر شہزاد صدیقی نے نصیر ہمایوں مرحوم کی یاد میں چند حروف کے عنوان سے کالم لکھا اور ان کی وطن وسیب کیلئے خدمات کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا کہ جب بھی امریکہ سے ملتان آتے تو محافل کی جان بن جاتے اور ہر شخص کو اپنا گرویدہ کر لیا کرتے تھے۔ وہ رویوں کو سمجھنے میں کمال قدرت رکھتے تھے ان کے ہاں افراد کو دوست بنانے کا خاصہ دلکش انداز تھا جسے وہ دوست بنا لیتے تھے اسے زندگی بھر دوست رکھتے تھے ۔ آج نصیر ہمایوں کو ہم سے بچھڑے ایک سال بیت گیا مگر وہ آج بھی ہمارے ذکر میں ہمیشہ کی طرح زندہ و جاوید ہیں۔ تیرے جانے کے بعد بھی میں نے تیری خوشبو سے گفتگو کی ہے