دوستو! کل پھر تیس دسمبرتھا جو اتفاق سے میراجنم دن بھی ہے۔ کچھ سال قبل اپنی ایک دسمبرانہ غزل میں اسی کی بابت عرض کیا تھا: آنکھیں کھول کے دیکھ دسمبر اپنی ہر Mistake دسمبر تُو ہے سال کا آخری بیٹا تُو تو ہو جا نیک دسمبر تیری ٹھنڈک پی جائے گا اُن آنکھوں کا سیک دسمبر دل والوں کی دنیا اندر تُو ہے نمبر ایک دسمبر تیس کو اپنی سال گرہ ہے آ کے کھا لے کیک دسمبر نئے سال کی آمد آمد ہے۔وسائل سے بھرا ہوا ملک، سازشوں، مفاد پرستیوں، غلط بخشیوں، غلط لوگوں اور غلط حکمتِ عملیوں کی وجہ سے مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن آج ہمارا سیاسی سیاپا کرنے کا کوئی موڈ نہیں۔ دل چاہ رہا ہے کہ آنے والے سال کے رستے میں مسکراہٹ کی کلیاں بچھائیں۔ کہا جاتا ہے کہ انسانی چہرے کے تینتالیس مسلز ہوتے ہیں ، جو ایک مسکراہٹ کے ساتھ سب کے سب مثبت انداز میں متحرک ہوتے ہیں۔ چلیے نئے سال کے استقبال کے طور پہ آج انھی مسلز کو اسی رُخ پہ متحرک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنا تو ویسے بھی دیرینہ موقف بلکہ پختہ عقیدہ ہے کہ ’زندہ دل ہونا، زندہ ہونے سے زیادہ اہم ہے۔‘ ٭ وقت (و ق ت) کی مناسب ترتیب و استعمال سے اسے قوت (ق و ت) میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ٭ زندگی کا سفر بچپن کے پھول چوک اور جوانی کے بھول چوک سے ہوتا ہوا، بڑھاپے کے دُھول چوک میں گم ہو جاتا ہے۔ ٭ ہم نے ایک ننھے بچے سے اس کے دوست کی بابت دریافت کیا تو کہنے لگا: ہم دونوں ایک ہی رِکشے میں سکول جاتے ہیں، اس لیے وہ میرا رِکشے دار ہے۔ ٭ نصف صدی قبل ہمیں مکتی باہنی کا سامنا تھا، آج مکتی باہمی کا۔ ٭ جو لُوٹ مار، ٹوٹ کے کی جائے، اسے نہایت آسانی سے ’’ٹوٹ مار‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ٭ سابقہ دورِ حکومت میںحکیم نے پرویز خٹک پر پہلی نظر پڑتے ہی بے ساختہ کہا تھا:ہمارا دفاع جتنا مضبوط ہے، وزیرِ دفاع اتنا ہی کمزور ہے۔ ٭ ضروری نہیں کہ جو سیاست دان اور صحافی سر سے خالی ہو، وہ شر سے بھی خالی ہو۔ ٭ کریلے ضروری نہیں نیم پر ہی چڑھے ہوں، وہ دو نیم ہونے سے بھی کڑوے ہو جاتے ہیں۔ ٭ اس لڑکی کو اللہ ہی پوچھے جو شادی میں دلہن سے بھی زیادہ پیاری لگ رہی ہوتی ہے۔ ٭ اپنے حکیم جی تو بکرا عید سے دس دن پہلے ہی احباب کو تسلیاں دینے لگ جاتے ہیں: مٹن قریب ہے، ’صبا‘ سے کہو نہ گھبرائے! ٭ استاد شاگرد سے : کسی ڈاکٹر کی سب سے بڑی خوبی بتاؤ؟ شاگرد: اس کے انٹرمیڈیٹ میں زیادہ نمبر آئے ہوتے ہیں! ٭ حکیم جی کہتے ہیں: ہمیںغسلِ میت سے زیادہ غسلِ نیت پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ٭ انگوٹھا، وہ واحد اُنگلا یا انگلی ہے، جس کی مؤنث انگوٹھی اس کے لیے نہیں ہوتی۔ ٭ وہ تو اتنا کھاتا ہے، اتنا کھاتا ہے، ایک بار قسم کھانے کا کہاتو ایک ہی سانس میں پچاس قسمیں کھا گیا۔ ٭ اس سے بڑا لطیفہ کیا ہو سکتا ہے کہ مریم اور بلاول بھی کسی کو سلیکٹڈ کہیں! ٭ علاج کے لیے باہر جانے پہ اصرار کرنے والے، اصل میں لاعلاج مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ٭ والد ضیا سے واجد ضیا تک… تیغوں کے سائے ہم پل کر جواں ہوئے ہیں۔ ٭ خود ستائی تو جگ ہنسائی کی بڑی بہن ہوتی ہے۔ ٭ جب آدمی کام چھوڑ دے ، کسی کام کا نہیں رہتا۔ ٭ کبھی کبھی تو تھوک کے حساب سے لوگوں کو دیکھ کے لگتا ہے کہ یہ کسی کی تھُوک کے برابر بھی نہیں۔ ٭ نہ خنجر اُٹھے گا نہ تلوار اِن سے یہ ’بابو‘ مِرے آزمائے ہوئے ہیں ٭ اس نے ماں باپ کی دولت دیکھ کے لڑکی سے منگنی کی۔ لڑکی کو ان عزائم کا علم ہوا تو جھٹ والی منگنی کا جھٹ پٹ خاتمہ کیا۔ اس طرح شادی سے قبل ہی اس کی منسوبہ اس کے ’جنج سالہ‘ منصوبے پہ پانی پھیر گئی۔ ٭ ہماری ترجیحات اور’نیک نیتی‘ کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ عالمی سروے کے مطابق : جس ملک میں ستانوے فیصد ٹسٹ اور ادویات مریض کا مرض نہیں میڈیسن کمپنیوں کی چمک دیکھ کے لکھی جاتی ہیں(ان میں ادویات اور ٹسٹ بھی اکثر جعلی) وہاں ہر ماں، باپ اپنے بچے کو ڈاکٹر بنانے کے لیے تن من دھن سے ہمہ وقت کوشاں ہیں۔ آخر میں ہم اُردو اساتذہ کا ایک مسئلہ یا المیہ بھی سماعت فرما لیں کہ ہمارے انگلش مزاج بچے روز بروز اپنی مادری فادری زبانوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں، والدین ان کی پیدائش پر کئی لغات چھان کر، لوگوں سے مشاورت کر کے ، کئی کشٹ کاٹ کے، اسلامی تاریخ میں تاک جھانک کر، ان کا اُردو، فارسی، عربی، ترکی میں خوبصورت اور بامعنی سا نام رکھتے ہیں، جسے وہ تمام عمر غلط انگریزی میں لکھتے رہتے ہیں۔ اس نسل کو یہ سمجھانے کی تو اب ضرورت ہی نہیں کہ مِنّت کی جاتی ہے، مَنّت مانی جاتی ہے، دعا مانگی جاتی، کھلبلی مچتی ہے، کوندا لپکتا ہے، طاقِ نسیاں پر رکھا جاتا ہے، پسِ پشت ڈالا جاتا ہے۔ اب تو وہ یہ بھی پوچھتے ہیں کہ ایسے کا ویسے ہو سکتا ہے تو اب کا وَب کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگرچہ ہو سکتا ہے تو مگرچہ کو کیا تکلیف ہے؟ اُردو گنتی تو یوں سمجھ لیں کہ اُن کے لیے ڈراؤنا خواب ہے۔ ایک انگلش میڈیم کی پڑھی ہوئی لڑکی پوچھنے لگی: ’یہ نواسی، بیٹی کی بیٹی کو کہتے ہیں یا ایٹی (80) کی بیٹی کو؟‘ چلتے چلتے گزشتہ امتحان میں ان کا اُردو محاورات کے ساتھ سلوک بھی دیکھ لیجیے: ٭ بچے نے ٹی وی پر کارٹون دیکھنے کے لیے ماں کے بہت اللے تللے کیے مگر وہ نہ مانی۔ ٭ عید پر بیوی کا رو رو کے برا حال ہو گیا کیونکہ اس کا دلدِر اُس سے دور تھا۔ ٭ عذرا نے ایک منٹ میں پوری الماری کو تین پانچ کر کے رکھ دیا۔ ٭ زمیندار غریب کے مکان پر قبضہ کر کے خواہ مخواہ اس کی بلائیں لے رہا ہے۔ ٭ علی نے پرات میں بھیگے چاول گرا دیے تو امی نے ڈانٹ کر کہا ابھی مَسیں مَسیں تو بھیگے تھے۔ (وطنِ عزیز کے لیے نیک تمناؤں کے ساتھ، اپنے تمام قارئین اوراحباب کو نیا سال پیشگی مبارک)