یہ رواج سا ہوتا جارہا ہے کہ پچیس دسمبر آتے ہی سیکولرزم کے سیلز مین کپڑے جھاڑ کردکان کے باہر آکھڑے ہیں ،بالکل بچت بازار کے ان پھل فروشوں کی طرح جو شام ہوتے ہی سامنے پڑا سامان بیچنے کے لئے ’’ہوگئی شام گرگیا دام ۔۔۔ہوگئی شام گرگیا دام ‘‘کی آوازیں لگانا شروع کردیتے ہیں ،یوم قائد آتے ہی لبرل بازاراور سیکولر منڈی کے بزعم خودمسنددانش پر براجمان سیلزمین کپڑے جھاڑ کر منہ کے دہانے کے ساتھ کھڑی ہتھیلی لگا کرآوازیں لگانے لگتے ہیں کہ قائد اعظم سیکولر تھے قائد اعظم لبرل تھے ۔۔۔ ان سیلز مینوں کے پاس قائد اعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لئے ان کی ایک آدھ تقاریر کے سوا کچھ نہیں۔ ان کے پاس دلائل کے نام پر گیارہ اگست کی ایک تقریر ہے جس میں قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ آپ آزاد ہیں،آپ آزاد ہیں۔،اپنے مندروں میں جانے کے لئے،آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میںجانے کے لئے اور ریاست پاکستان میں کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لئے ،آپ کا تعلق کسی بھی مذہب ذات یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ‘‘۔اب کوئی بتائے کہ اسلام کب کسی کو عبادت گاہوں میں جانے سے روکتا ہے ؟یا دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی د ل شکنی کی اجازت دیتا ہے ؟سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ خود مسلمانوں کوحکم دیتے ہیں کہ جن کو یہ لو گ اللہ کے بجائے پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہو،مدینہ ہجرت لانے کے بعد میرے سرکار ﷺنے ان لوگوںکے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جو اصل میں فساد کی جڑ تھے اورجنہوںنے رسول ﷺ کو ستانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی لیکن جب سرکار ﷺ نے ان کے ساتھ معاہدہ کیا تو ذرا اسکی شقیں تو دیکھئے۔ تمام یہودیوں کو شہریت کے وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اسلام سے پہلے انہیں حاصل تھے ۔ باشندگان مدینہ میں سے جو شخص کسی سنگین جرم کا مرتکب ہواسکے اہل و عیال سے اسکی سزا کا کوئی تعلق نہ ہوگا۔ اور تو اور اس معاہدے میں ایک شق کے مطابق تو یہ بھی کہا گیا بنی عوف کے یہودی مسلمان ہی شمار ہوںگے۔۔۔یہ معاہدہ اس ریاست کے ظرف کی نشاندہی کرتا ہے جس کو قائد اعظم نے آئیڈیل قرار دیا تھااور پھرمثالی محنت اور قیادت سے دنیا کی دوسری نظریاتی ریاست بنا ڈالی لیکن ہمارے سیکولر دانش ور چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتے رہتے ہیں اور درفتیناں چھوڑنے سے باز نہیں آتے گذشتہ روز ہم عصر کالم نگار کی تحریر نظر سے گزری جناب فرماتے ہوئے پائے گئے کہ چوں کہ قائد اعظم کے چار بنک اکاؤنٹس تھے ، وہ سگار پیتے تھے ،انگریزی تراش خراش کا لباس پہنتے تھے ،انہوںنے اپنے سے پچیس سال سے کم عمر لڑکی سے لومیرج کی اس لئے وہ سیکولر تھے جناب فرماتے ہیں کہ ’’یہ تھے جناح صاحب ماڈرن لبرل ،سیکولر اور سیف میڈ ارب پتی اور اگر محمد علی جناح ماڈرن ،لبرل اورسیکولرنہیں تھے تو پھر میں نہیں جانتا کہ دنیا میں دوسرا کون تھا ‘ قائد اعظم پر لبرل ،سیکولرہونے کا فتویٰ عائد کرنے کے بعد دلیل میں حیات قائد کا ذکر کرتے ہیںکہ ’’اس لائف اسٹائل میں سگار پینے سے لے کر بیش قیمت مغربی سوٹ پہننے تک،ایک الٹرا ماڈرن لڑکی سے محبت کی ،شادی کرنے سے لے کر اپنی بہنوں کو عیسائی بورڈنگ اسکولوں میں تعلیم دلانے تک اور اقلیتوں کے حقوق کا مقدمہ لڑنے سے لے کر بھگت سنگھ کی حمائت تک ،سب کچھ شامل ہے ‘‘۔ یہ دلائل پڑھنے کے بعد بندہ اس کے سوا کیا کہے کہ جنوں کانام خرد پڑ گیاخرد کا جنوں جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے ان دلائل کی رو سے پوچھنا ہوگا کہ معروف عالم دین مولانا سلیم اللہ خان مرحوم کے لئے موصوف کیا فرمائیں گے کہ وہ ’’زردے‘‘ کے شوقین تھے بے شک وہ بیش قیمت سگار کی صورت میں تمباکو نہیں لیتے تھے لیکن پان کے پتے پر تمباکو رکھ کر کلے میں دبا لیا کرتے تھے توکیا وہ انہیں بھی وہ تھوڑا سا سیکولر اور لبرل کہنے کی جسارت کریںگے ؟دیکھئے جناب قائد اعظم نے جوانی کیسی گزاری، سگار کون سے پئے ،موٹر کار وں میں سفر کیا ،پالتو کتوں کے ساتھ تصاویر کھنچوائیں ۔۔۔یہ سب ان کاماضی تھا ان کی زندگی کے آخری ایام کا مطالعہ تو کیجئے، بے شک انہوں نے کسی مدرسے میں داخلہ نہیں لیا لیکن وہ کیا فرماتے پائے گئے جس محمد علی جناح کو چار بنک اکاؤنٹس سے منافع لینے پر سیکولر قرار دیا جارہا ہے، انہوںنے یکم جولائی 48ء کو اسٹیٹ بنک کا افتتاح کرتے ہوئے کیا کہا تھا،یہ قائد اعظم کی زندگی کی آخری تقریر تھی۔ اس تقریر میں قائد اعظم صاف کہہ رہے ہیں کہ میں آپکے تحقیقی کام کو بہت باریک بینی سے دیکھوں گا کہ وہ کیسے اسلام کے معاشی معاشرتی تصورات کے مطابق بنکاری نظام کو ترتیب دیتے ہیں ،مغرب کے معاشی نظام نے انسانیت کے لئے ختم نہ ہونے والے مسائل پیدا کر دیئے ہیں،ہم میں سے بہت سے لوگوںکا خیال ہے کہ اس نظام کو تباہی سے کوئی معجزہ ہی بچا سکتا ہے ‘‘۔ یہ خیالات مولانا یا علامہ محمد علی جناح کے نہیں قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ ہی کے ہیں، ان کلمات کی ادائیگی کے بعد بھی اگر کوئی قائد اعظم کو سیکو لیبرل قرار دے تو اسے ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے اس پر کسی کو تسلی نہیں تو 8مارچ 1944ء کو علی گڑھ یونیورسٹی میں قائد اعظم محمد علی جناح کا خطاب ہی پڑھ لے ،قائد اعظم کے الفاظ تاریخ نے سنبھال رکھے ہیں کہ مسلمانوں کی قومیت کی بنیاد صرف کلمہ ء توحید ہے،نہ وطن نہ نسل‘‘۔ اب بھی اگر کوئی ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی دوسری نظریاتی ریاست کے بانی کو سیکو لیبرل کہے تو اسکے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ جناب کا کوا ہی سفید ہے !