اگرچہ موجودہ وقت کی ملکی سیاست کو مستحکم قرار نہیں دیا جاسکتا، اس میں ٹھہرائو ضرور نظر آرہا ہے۔ پارلیمان میں ہنگامہ اور شور کی بنسبت بردباری اور رکھ رکھائو کی کیفیت واضح طور پر دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی کراچی میںوفاق کے بڑھتے کردار پر تشویش اپنی جگہ، ملکی سالمیت اور وحدانیت کے لیے درکار آئین سازی پر حکومت کے ساتھ اس کا تعاون ایک حقیقت ہے۔ کچھ یہی صورتحال مسلم لیگ ن کی ہے۔ سابقہ حکمران دونوں جماعتیں اس وقت جس تدبر اور ذہانت کا ثبوت دے رہی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پچھلے پورے دوسال ان پارٹیوں نے احتسبا بی عمل کے رکنے تک حکومت سے کسی قسم کا تعاون نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ اب یہ صورتحال ہے کہ نہایت سعادت مندی سے سے آئین سازی کے عمل میں حصہ لیکرانہوں نے ملک کو عالمی برادری میں ایف اے ٹی ایف کے معاملے میں شرمندگی سے بچالیا ہے۔ جو قوانین بنائے گئے ہیں ان پر عملدرآمد ہی ملک اور اس کی سیاست کا ہی تعین نہیں کریگا بلکہ پاکستان کے مقام اور مرتبے کا بھی۔ حیرت انگیز طور پر بڑ بولے اور منہ پھٹ وزیروں اور حکومتی مشیروں کے لب ولہجے میں کوئی فرق دیکھنے میں نہیں آرہا اور نہ ہی اپوزیشن کے خلاف احتسابی کاروائیوں اور اسکے جواب میں روائتی احتجاج کے طریقوں میں کوئی تبدیلی نظر آئی ہے۔ نیب کی عمارت پر پتھراو تازہ واقع ہے اور شرپسندوں کے خلاف کاروائی بھی معمول کے مطابق ہوئی ہے۔اپوزیشن کی اس معاملے میں ردعمل میں یکسانیت بھی کوئی نہیں بات نہیں۔ ضروری آئین سازی بھی ہوگئی ہے اور ملکی سیاست میں کوئی بھونچال بھی نہیں آیا۔ مایوس لوگوں کے پاس اپوزیشن کو بھڑکانے کے لیے کافی مواد تھا۔ شہ یہ ملی کہ یہ پہلے حکومت سے نیب لا میں اپنی مرضی کے ترامیم کروائیں اور بعد میں ایف اے ٹی ایف سے متعلق قوانیں پر اپنی رضامندی دی جائے۔ احتساب قانون میں اس حد تک تبدیلی کا مشورہ دیا گیا کہ سابقہ حکمران پارٹیوں کو احتساب پر کلین چٹ ہی مل جائے۔ نیب کے دانت کھٹے کردیے جائیں۔ نیب سے مشکوک افراد کی گرفتاری اور نظر بندی کا اختیار چھن جائے تو پھر خیر ہے۔ عدالتی معاملات کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔ عزت بچ جائے ، قانونی چارہ جوئی اتنا مہنگا سودا نہیں۔ اپوزیشن نے دانائی کا ثبوت دیا اور دو معاملوں کو علیٰحدہ رکھنے کی حکومتی تجویز مان لی گئی۔ اصل میں کچھ تو سیاسی تقاضے ایسے تھے اور کچھ ملکی حالات بھی کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے دس سالہ اقتدار میں اپوزیشن نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی تھی۔ اگر ہر پارلیمانی پارٹی اقتدار میں حصہ دار بن جائے تو اپوزیشن کہاں سے آنی تھی؟ سیاست ہی صلح جوئی کی کرنا ہو تو کسی کو ناراض کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سچ ہے کہ سیاسی بھائی چارے نے بندر بانٹ کے کلچر کو فروغ دیا۔ اٹھارویں ترمیم اور بعد کی قانون سازی میں سب کا فائدہ ہوا۔ مشترکہ اقتدار کا ایسا سورج چڑھایا گیا کہ اگر تحریک انصاف میدان میں نہ آتی تو اس نے غروب ہی نہیں ہونا تھا۔ اگر اس عرصے میں کرپشن ہوئی اور نیب کے ہاتھ بندھے رہے تو اس میں کچھ عجیب بات نہیں تھی۔ پچھلے دو سال سابق حکمران سیاسی پارٹیوں نے صدمے میں گزارے ہیں۔ انہوں نے بہر طور کوشش کی تھی کہ حکومت ناکام ہوجائے۔ دوسرے طرف تحریک انصاف نے بھی اپوزیشن کو لفٹ نہیں کرائی۔ پورے دوسالوں میں انڈیا کے ساتھ معاملات بگڑے، کورونا آیا، ٹڈی دل کی یلغار ہوئی ،سابق حکمران پارٹیوں کے ساتھ اسکا رویہ عناد کا رہا۔ بجٹ جیسے تیسے پاس ہوگئے، کشمیر کی صورتحال پر بھی گزارا کرلیا، کورونا اس کے لیے غیبی مدد سے کم نہیں تھا۔ اس وقت جو فرق نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیوں، بشمول تحریک انصاف، نے اپنا مقام اور حیثیت پہچان لی ہے۔ صرف حکومت کے کہنے پر اپوزیشن کو پھانسی پر نہیں لٹکا یا جاسکتا۔ اپوزیشن چاہے بھی تو حکومت کو اپنی مرضی پر نہیں چلا سکتی۔ تحریک انصاف نے سیاسی بھائی چارے کا حصہ بننا ہوتا تو کب سابقہ حکمران پارٹیاں یہ نہیں چاہتی تھیں؟ اس سے قطع نظر کہ کسی نے شٹ اپ کال دی ہے یا انہیں اپنے طور پر عقل آئی ہے، اہم بات یہ ہے کہ ملکی معاملات کو اس کے تقاضوں کے مطابق چلانا ایک کام ہے، آپس کی ضد بازی دوسرا۔ دونوں کو غلط ملط کرنے کا ملک متحمل نہیں ہوسکتا۔ حکومت انتظامی معاملات کو دیکھے گی اور اپنے منشور کے مطابق ترقیاتی عمل کو آگے لے کر بڑھے گی، ایک مضبوط اپوزیشن اس کی کارکردگی پر نظر رکھے گی۔ دشمنی کی روش کو مسابقاتی عمل میں تبدیل کرنا اگر ایک چیلنج تھا تو ملک اس مرحلے سے گزرتا ہوا نظر آتا ہے۔ جہاں تک احتساب کا معاملہ ہے یہ بھی ایک روایت پڑنے کا محتاج ہے، ایک دفعہ اسے آزاد ثابت کردیا گیا تو اس پر سیاست کرنے کی روش بھی ماند پڑجائے گی۔ اور ایسا کرناکچھ مشکل بھی نہیں ہے، آخر عدلیہ کی آزادی بھی تو تسلیم ہو ہی گئی ہے۔