"بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے" کے مصداق قوم اپنا راستہ بنانے لگی ہے، اک سیل رواں ہے جو رکنے کو تیار نہیں، برستی لاٹھیوں، آنسو گیس شیلوں، ربڑ کی گولیوں میں بھی آزادی، آزادی کے نعرے بلند کرتی ہے، دوسری جانب سے ریاستی طاقت کا استعمال بھی نہیں رک رہا لیکن شکست نے اس اشرافیہ کے ذہین مفلوج بنا دیے ہیں۔معاشرتی سمت بڑی انگڑائی لے چکی ہے، معاشرہ اپنی کروٹ کی راہ میں ہر رکاوٹ کو ہٹانے پر تل چکا ہے، ہر نیا دن ایک نیا تماشا سامنے لارہا ہے، شائد ایک جانب قوم کی مشق کروائی جارہی ہے اور دوسری جانب سب کرداروں کو بے نقاب کرنے کا کھیل بے دردی سے جاری ہے، جس طرح سے طاقت کے استعمال میں ریاست کے تمام ڈھانچے اور کل پرزوں کو بے نقاب کیا جا رہا ہے، تمام خامیاں کھل کر سامنے آ چکی ہیں، جن کی نفی اور تصدیق کی بحث میں ہم نے عشروں کے عشرے برباد کر ڈالے، اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ناخداوں نے اپنی ہر چال اور قدم سے آشکار کردیا کہ یہ نظام عوام کا محافظ نہیں، عملاً اسے تحفظ فراہم نہیں کرتا البتہ یہ پورا نظام جن کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، وہ اس ڈھونگی کھیل میں ناکام کھلاڑی کے طور پر سب کے سامنے ہیں ۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں جس طرح پے در پے دو روز میں دو بینچ ٹوٹ گئے؛ سوالات کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے، جس کے جواب میں عمران خان کو برا بھلا کہنا نہیں ہے، ایک معزز جج کا ازخود نوٹس کی بابت فیصلہ آنے کے بعد حکومت کی جانب سے ان کے خلاف کیس ختم کرنے سے سوالات کا جنم لینا فطری تھا، اگلے روز ایک معزز جج جنہوں نے بینچ کا حصہ رہنے کا کہا، وہ بینچ سے الگ ہوئے تو قوم کے ذہنوں میں سوالات کھٹکھٹانے لگے اور سوشل میڈیا پر سوالات کے پہاڑ کھڑے کردئیے گئے، درحقیقت جنہوں نے عام آدمی کو گونگا بہرا تصور کر رکھا تھا، عام آدمی میں سے کوئی ابھرتا، آواز بلند کرتا؛ اسے بزور طاقت ڈرا دھمکا کر چپ کروانے کا ہنر سیکھ رکھا تھا، ان کے لیے عوام کا جنون طاقت کی موت کا پیش خیمہ ہے، لہذا گزشتہ ایک برس سے طاقت کا بے دریغ استعمال جاری ہے جبکہ عام آدمی ٹلنے کیلئے تیار نہیں، اس نے ہر ظلم اور زیادتی سہہ لی مگر اپنا موقف تبدیل کرنے کو تیار نہیں، عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم کے اظہر مشوانی لاپتہ ہوئے، کال پر احتجاج شروع ہوا اور اظہر مشوانی کا ٹوئٹ آگیا کہ میں اپنے گھر پہنچ چکا ہوں، معاشرے کی اس انگڑائی نے طاقت کے رسیا حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر رکھا، سو وہ ہر اس طریقے سے طاقت کا استعمال کر رہے ہیں، جس کی جمہوریت اجازت نہیں دیتی، حتی کہ انتخابات کا نام ان کے وجود پر کپکی طاری کرنے کیلئے کافی ہے، عدلیہ میں تقسیم کیا اس سے الگ ہے؟ بیرسٹر اعتزاز احسن کا موقف ہے: دباؤ ہو تو دراڑیں پڑتی ہیں اور نظر آتی ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان جناب عمر عطا بندیال اپنے ریماکس میں واضح کر چکے کہ انتخابات تو آئین کے مطابق ہونگے، حالات ایسے پیدا کر دئیے گئے ہیں کہ آئین کے دامن سے مضبوط وابستگی چیف جسٹس آف پاکستان کو عدالتی تاریخ کے تاریخی کردار جسٹس ایم آر کیانی کے دھارے میں لا کھڑا کرے گا، ایسی زور دار ٹحریک چلے گی کہ اسے بزور طاقت روکنا ناممکن ہو جائیگا، یہ ایک تاریخی کشمکش ہے جو اصول اور نظریات کے پیرائے میں پورے آب و تاب سے ہر مقام زندگی پر دوڑ رہی ہے، عام آدمی جان چکا تو مسلمان ہے تو تقدیر ہے تدبیر تری! عمران خان کا کہنا ہے کہ ن لیگ نے جیسے 1997 میں نوازشریف کے خلاف توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کرنے والے چیف جسٹس سجاد علی شاہ پر حملے کیلئے سپریم کورٹ پر دھاوا بولا، ویسے ہی ایک مرتبہ پھر یہ سپریم کورٹ اور چیف جسٹس کو دھمکا رہی ہے کیونکہ انتخابات سیخوفزدہ ہے، انھوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ضرورت پڑنے پر پوری قوم آئین، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی ?کے دفاع کیلئے سڑکوں پر نکلنے کیلئیتیار رہے، انھوں نے کہا کہ ہم ان تمام سیاسی جماعتوں سے بات کرینگے جو اس سازش کیخلاف کھڑی ہونے کو تیار ہیں، انھوں نے وکلا سے کہا کہ آئینِ پاکستان اور قانون کی حکمرانی کے تحفظ کیلئے اسی طرح آگے بڑھ کر کردار ادا کریں، جیسا انہوں نے2007 کی وکلائ￿ تحریک کے دوران کیا، وکلاء برادری بھی مسلسل آئین و قانون کی عملداری کی غرض سے تحریک چلانے کے پورے موڈ میں ہے، حقیقی آزادی کا بیانیہ وکلاء ہاتھوں ہاتھ لے رہے ہیں، ملک بھر میں عدالتی معاملات عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز کر رہے ہیں، وطن عزیز میں بار بار بڑھتی مہنگائی نے الگ عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے، انتخابات کا التوا شکست کے خوف کے باعث ہے، عوام یہ جو نعرے سنتے رہے کہ یہ کرو گے تو انتخابات ہونگے، یہ نہیں کرو گے تو انتخابات ہونگے، انھوں نے اپنے حقوق کیلئے ضد باندھ لی ہے، اس پر حیرت کہ تاریخ میں پہلی حکومت ہے، جسے نیک نامی اور بدنامی سے کوئی سروکار نہیں، ہر غلطی، نااہلی اور کمزوری کا اعتراف یہ کہتے کرتی چلی جارہی ہے کہ ان وجوہ کی بنا پر انتخابات کا انعقاد ممکن نہیں، اس پر نواز شریف کا لندن سے چیف جسٹس کو طعنہ دینا کہ اگر آنسو اللہ کے خوف سے ہیں تو اچھی بات ہے، اس پر کیا عوام کے زخموں پر نمک پاشی نہیں کی جارہی؟ عام آدمی کی حالت بدحال آٹے کی تقسیم کے مواقعوں پر بھگدڑ مچنے سے ہونیوالی اموات ہیں، کراچی میں تو نجی مل کے باہر بھگدڑ سے 3 بچوں اور 8 خواتین سمیت 11 افراد جان کی بازی ہار گئے، اوپر سے ظلم دیکھیں؛ مہنگائی کی شرح میں اضافے کی خبریں متواتر اپنا سر اٹھا رہی ہیں، ان نامساعد حالات میں عوام اس طعنے کی زنجیروں کو توڑ رہی ہے کہ یہ عوام نہیں، ہجوم ہے، "بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے" کے مصداق قوم اپنا راستہ بنانے لگی ہے، اک سیل رواں ہے جو رکنے کو تیار نہیں۔