کرونا وائرس کی متواتر اطلاعات اور دنیا کے مختلف ممالک میں اس سے متاثرہ افراد کی خبروں نے بعض مفاد پرست اور سنگدل افراد کو موقع دیا ہے کہ وہ پاکستان میں اس وائرس کے متعلق ہیجان کی کیفیت پیدا کر دیں۔کرونا ایک وائرس ہے جو متاثرہ افراد کے نظام تنفس کو نشانہ بناتاہے۔ ایسے اور بھی کئی امراض ہیں جو انسان کے نظام تنفس پر حملہ کرتے ہیں‘ کچھ کیمیائی مادے اسی طرح سانس کی تکلیف پیدا کر سکتے ہیں۔ اس سے قبل ٹی بی کا مرض خطرناک تصور کیا جاتا رہاہے۔ حیرت کی بات ہے کہ پوری دنیا میں مچھر کاٹنے سے جتنے لوگ ہر سال مر جاتے ہیں وہ بہت سے خطرناک سمجھے جانے والے امراض سے زیادہ تعداد میں ہیں۔ چین میں کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد ڈیڑھ ارب کی آبادی میں ایک لاکھ کے قریب ہے۔ ان میں سے ڈھائی ہزار ہلاک ہوئے باقی 97ہزار 500افراد صحت یاب ہو کر معمول کی زندگی گزار رہے ہیں۔اس سے ان اطلاعات کی نفی ہوتی ہے کہ کرونا وائرس کا علاج موجود نہیں۔ پاکستان میں صحت و صفائی کی عادات‘ ماحول اور بیماریوں کے علاج کی عمومی سہولیات غیر تسلی بخش رہی ہیں۔یہاں ایسی حکومتیں برسر اقتدار رہیں جو صحت و تعلیم پر سب سے کم بجٹ مختص کر کے عوام کی زندگی کو خطرات کا شکار بناتی رہیں۔ خطے میں ٹی بی‘ ایچ آئی وی ایڈز‘ ہیپاٹائٹس بی اور سی سمیت ایسی بہت سی بیماریاں موجود ہیںجو ایک فرد سے دوسرے کو منتقل ہو تی ہیں۔ملیریا‘ ڈینگی اور پولیو جیسے امراض الگ سے چیلنج بن کر نمودار ہوتے رہے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان کے بڑے شہروں میں آبادی کا بوجھ ناقابل برداشت ہو رہا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی نے انسانوں سے انسانوں کو منتقل ہونے والی بیماریوں کو پھیلنے کا آسان راستہ دکھا رکھا ہے۔ صاف پانی کی عدم دستیابی‘ پانی کی کمی‘ خراب سوشو اکنامک حالات‘ صحت کے متعلق آگاہی کا نہ ہونا اور آبادی کے سارے حصے کو ویکسی نیشن کی سہولت نہ ملنا بیماریوں کو جڑیں مضبوط کرنے کا موقع دیتا ہے۔یہ مسائل عشروں سے موجود ہیں۔ حکومتی اقدامات میں عزم کی کمی رہی اس لئے ہر خرابی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہی‘ اس کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ یہ مشکل صورت حال وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لئے فکر مندی کا باعث ہے۔ کرونا بہت سے وائرسوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والا وائرس ہے۔ یہ اس لئے تشویش کا باعث بنا ہوا ہے کہ اس کی جو قسم حالیہ دنوں سامنے آئی ہے وہ پہلے موجود نہیں تھی۔ یہ وائرس جانوروں اور انسانوں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے قبل سارس وائرس بلیوں سے انسانوں کو منتقل ہوا اور ایم ای آر ایس وائرس اونٹوں سے انسانوں تک پہنچا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جانوروں میں کرونا وائرس کی کئی قسمیں گردش کرتی رہتی ہیں لیکن یہ انسانوں کو متاثر نہیں کرتے۔کرونا کی عمومی علامات میں بخار‘ کھانسی‘ سانس لینے میں تکلیف وغیرہ ہے۔ متاثرہ فرد کی حالت زیادہ بگڑے تو نمونیہ‘ سانس کی تکلیف‘ گردے کا فیل ہونا اور بعض انتہائی شکلوں میں موت کا واقعہ ہونا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے جو احتیاطی تدابیر جاری کی ہیں ان کے مطابق ہاتھوں کو بار بار دھویا جائے‘چھینک اور کھانسی کے قوت منہ اور ناک کو رومال وغیرہ سے ڈھانپ کر رکھا جائے۔ اس طرح گوشت یا انڈے پکاتے ہوئے منہ اور ناک کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیے۔ ایک احتیاط یہ بتائی جاتی ہے کہ جس فرد میں کرونا کی علامتیں معلوم ہوں اس سے حفاظتی انتظامات کے بغیر رابطہ نہ رکھا جائے۔ پاکستان میں تاحال کرونا کے تین مریض شناخت ہوئے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ چین کے بعد ہمارے دوسرے ہمسائے ملک ایران میں اس وائرس نے کئی لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ افغانستان سے کچھ متاثرہ افراد اور بھارت میں کرونا کی موجودگی کی اطلاعات سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ سرحدوں پر آمدو رفت کی نگرانی کر کے اور سکریننگ کو یقینی بنانے کے باوجود یہ وائرس ایک سے دوسرے ملک پہنچ رہا ہے۔ امریکہ‘یورپ اور آسٹریلیا میں بھی اس کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق چین اور ایران کے سوا پوری دنیا میں یہ وائرس زیادہ خطرناک ثابت نہیں ہوا۔ اس سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے تو کرونا سے نمٹنا مشکل نہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارا سماج ابھی تک اپنے ہاں انسان دوست کاروباری رویے تخلیق نہیں کر پایا۔ہمارا تاجر اور کاروباری فرد اس حد تک بے حس ہو چکا ہے کہ وہ قوم کو لاحق پریشانی میں بھی اپنا فائدہ ڈھونڈ نکالتا ہے۔400والا سرجیکل ماسک کا ڈبہ کراچی میں 2000روپے میں مل رہا ہے۔ دوسرے شہروں میں عام سے کپڑے سے بنا ڈسٹ ماسک 10روپے سے 50روپے پر پہنچ گیا ہے۔ نام نہاد حکیموں اتائیوں‘ ڈاکٹروں اور عاملوں نے الگ سے دکانداری کا آغاز کر دیا ہے۔ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ اور سوشل میڈیا پر کرونا وائرس کو جس طرح زیر بحث لایا جا رہا ہے اس سے عوام الناس میں ہیجان پیدا ہو رہا ہے۔ لوگ اسے ایک مرض سمجھ کر دوسری اقوام کی طرح اس کا مقابلہ کرنے کی بجائے بددلی اور مایوسی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ یہ وائرس پاکستان میں خطے کے تمام ممالک کی نسبت تاخیر سے پہنچا کیونکہ حکومت نے حتی الامکان حفاظتی تدابیر اختیار کر رکھی تھیں۔ اب جبکہ پاکستان میں دو تین افراد میں اس کی تشخیص ہوئی ہے تو ہمیں بطور قوم اپنے رویوں کوو ہمدردانہ اور ذمہ دار بنانے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت اس وائرس کے حوالے سے جو آگاہی مہم شروع کر چکی ہے اس میں یہ پیغام نمایاں ہونا ضروری ہے کہ افراتفری‘ غیر مستند اطلاعات اور ہیجان پیدا کرنے والے افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔