الیکشن کمیشن نے اپنے سیاسی آقائوں کے ایماء پر آئین شکنی‘ قانون سے انحراف‘ عوامی مطالبات کا خون کرتے ہوئے انتخابات سے فرار کے لئے جو بہانے اور جواز تراشے ہیں وہ ریاست اور ریاست کے نیک نام اداروں کے منہ پر کالک ملنے کے مترادف ہے۔ایسی انمٹ سیاہی جو لاکھوں بار دھونے سے بھی مٹائی نہیں جا سکے گی‘ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے‘ جس پر ہر سال کئی ارب روپے خرچ کئے جاتے ہیں اس مستقل ادارے کا صرف ایک کام ہے کہ وہ جب ضرورت ہو ملک میں انتخابات کا انعقاد کرے یہ فریضہ اسے پانچ برس میں صرف ایک بار ادا کرنا ہوتا ہے لیکن قوم اسے مسلسل پالتی رہتی ہے‘انتخابات کے ہنگام آئین نے انہیں اتنے وسیع اختیارات سونپ رکھے ہیں جو بڑے سے بڑے ڈکٹیٹر کے خواب و خیال سے بھی زیادہ ہیں‘ مگر ہمارا آئینی ادارہ نامقبول اور غیر نمائندہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ سازش میں شریک ہو کر پاکستانیوں کے بنیادی حقوق سے انحراف کو رہا ہے۔الیکشن کمیشن اور غیر نمائندہ حکومت کی ملی بھگت سے انتخابات سے فرار اور مقبول ترین سیاست دان عمران کو راہ سے ہٹانے کے لئے قاتلانہ حملہ تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کی کوششیں‘ جعلی مقدمات نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی بحران شدت اختیار کر گیا‘ سیاسی بحران نے معاشی بدحالی کی بدترین شکل اختیار کر لی۔پاکستان جعلی حکومت کی نااہلی‘خود غرضی اور بدعنوانی کے ہاتھوں دیوانے جا رہا ہے‘ مقبول سیاسی قیادت اور سیاسی جماعت کے خلاف ریاستی طاقت کے جارحانہ اقدامات نے ملک کو خانہ جنگی کے دہانے لاکھڑا کیا‘ ان حالات میں بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا نتیجہ یہ ہے کہ امریکہ‘ آسٹریلیا ‘ برطانیہ اور دوسرے جمہوری ملکوں میں پاکستانیوں نے حکومتوں کو مخاطب کر کے پاکستان کے حالات کی جانب توجہ دلانا شروع کر دیا ہے۔ امریکہ میں مقیم ایک ہزار سے زیادہ پاکستانی ڈاکٹروں نے اس تحریک کی ابتدا کرتے ہوئے امریکی قانون سازوں ارو صدر بائیڈن کی انتظامیہ کے سینئر اراکین کو بھیجے جا رہے جس میں لکھا گیا ہے کہ ہم پاکستان کی نازک صورتحال پر آپ کی فوری توجہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ اختلاف رائے کو دبانے اور سابق وزیر اعظم عمران کی سلامتی کو لاحق خطرات کی وجہ سے ہمارے خاندان اور پیاروں سمیت لاکھوں شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی وجہ سے آپ کا تعاون درکار ہے‘ ڈاکٹروں نے قانون سازوں کو اپنی تشویش دور کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ صورتحال فوری توجہ اور اقدامات کا تقاضا کرتی ہے تاکہ ملک کو ایک اور دہائی کے لئے مارشل لاء کی تاریکیوں میں ڈوبنے سے بچایا جائے پاکستانی نژاد امریکی شہری ہونے کے ناطے ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لئے آپ کی حمایت کے خواہاں ہیں کہ پاکستانی عوام کی آواز سنی جائے۔ہم پاکستان کے حالات پر آپ کی توجہ اس لئے چاہتے ہیں کہ عالمی برادری کی مدد سے ہم اپنے وطن کو تاریکی کے گڑھے میں گرنے سے بچا سکتے ہیں۔ہم آپ پر زور دیتے ہیں کہ فوری کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کے تمام شہریوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کریں۔ پاکستان کے سیاسی حالات پر فکر مند محب وطن پہلے ہی متحرک ہو چکے ہیں اور اب الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کے التوا اور ملک کی گھمبیر صورتحال اور کمیشن کے عذر اور بہانے کے جواب میں بااثر پاکستانی سفارتکار‘ سابق جرنیل‘ سیاستدان دانشور بیرون ملک بااثر اور باصلاحیت وکلاء اور شہری جو امریکہ کے سابق صدور کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتے ہیں، جن میں بعض ایک کو راقم ذاتی طور پر جانتا ہے جو بل کلٹن اور اوباما سے بہت قریب اور بے تکلف تعلق رکھتے ہیں۔وہ اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے حالات پر اقوام متحدہ کو متوجہ کر سکتے ہیں۔ انتخابات سے حکومت کے فرار اور الیکشن کمیشن کے ساتھ ملی بھگت سے انتخابات کا التوا سپریم کورٹ میں زیر سماعت آ چکا ہے۔انتخابات کے بارے میں آئین کی ہدایات بڑی واضح ہیں، فرار کا کوئی قانونی جواز موجود نہیں لہٰذا آئین کے مطابق عمل کرنے اور عوام کی منشا پر عمل کرنے کی بجائے حکومت نے سپریم کورٹ کے اختیارات پر حملہ کر دیا ہے، یہ سب کچھ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پل پل نشر کر رہے ہیں، یہ ایک تشویشناک ’’چارج شیٹ‘‘ بنتی جا رہی ہے۔1۔ الیکشن کمیشن کے حکومت کے ساتھ مل کر ایک ڈرامہ رچایا، جس میں کہا گیا کہ وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ ہمارے پاس انتخابات کے اخراجات کے لئے وسائل ناکافی ہیں ہم فوری فنڈز فراہم نہیں کر سکتے۔2۔ وزارت داخلہ اور وزارت دفاع نے ملک کے غیر یقینی حالات اور مفروضہ دہشت گردی کا عذر تراشتے ہوئے انتخابات میں تحفظ فراہم کرنے کے لئے افرادی قوت‘ پولیس اور افواج کی ناکافی تعداد کا بہانہ گھڑ لیا ہے۔3۔ متعلقہ عدالت عالیہ نے انتخابات کے لئے عملہ دینے سے معذرت کر لی ہے کہ ان کے پاس مقدمات کی بھرمار ہے ان مقدمات میں مصروفیت کی وجہ سے وہ ’’ریٹرننگ افسر‘‘ نہیں دے سکتے۔ مذکورہ تین بہانے سپریم کورٹ میں آنے کے بعد ’’دستاویزی ثبوت کی شکل میں دستیاب ہو جائیں گے‘ الیکشن کے فیصلے‘ سپریم کورٹ میں دستاویزی شکل میں آنے کے بعد بااثر سابق سفارتکار خصوصاً جو اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں وہ بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ مل کر یو این او کے سیکرٹری جنرل مطالبہ کر سکتے ہیں کہ : 1۔پاکستان میں دو اسمبلیاں فوری انتخابات کے لئے خالی ہیں‘ آئین کے تقاضے اور پاکستانی عوام کے جمہوری حق کی حفاظت کے لئے اقوام متحدہ امن فورس کے دستے پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کے لئے مہیا کرے‘ کیونکہ پاکستان میں وزارت داخلہ اور دفاع کی وزارت ناکافی نفری کی وجہ سے انتخابات کے انعقاد سے معذور ہیں، اس لئے آپ اسی طرح عارضی امن فورس مہیا کریں جس طرح بعض دوسرے ملکوں میں مہیا کرتے رہے ہیں‘ خود پاکستانی افواج بھی امن فورس کے دستوں میں خدمات دے چکے ہیں۔پاکستان میں بھیجے جانے والے دستے پاکستان کے دوست ملکوں مثلاً ترکی‘ انڈونیشیا‘ ملائشیا ‘ چین وغیرہ سے بلائے جا سکتے ہیں یقینا مذکورہ ملک پاکستان میں امن و امان کے لئے خدمات پر راضی ہو جائیں گے۔ 2۔ اکثر ملکوں میں انتخابات کے دوران بین الاقوامی ’’مشاہدہ کار‘‘(ابزرور) الیکشن عمل دیکھنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں جو انتخابات کی شفافیت کے بارے میں اپنی رپورٹیں بھیجتے ہیں‘ انہی مشاہدہ کار ایجنسیوں سے اقوام متحدہ انتخابات کے انعقاد کے لئے ’’ریٹرننگ افسر اور اسسٹنٹ ریٹننگ افسر کے طور پر ماہرین کا بندوبست کر سکتی ہے‘ ان کے زیر عمل انتخابات زیادہ شفاف اور تنازعہ سے پاک ہونگے۔ 3۔ انتخابات کے اخراجات کے لئے الیکشن کمیشن کو’’بیس ارب‘ روپے درکار ہیں، جو ڈالروں میں صرف سات کروڑ سے بھی کم ہیں یعنی پاکستان میں انتخابات کے لئے 70ملین امریکی ڈالر چاہیے ہونگے ایک پاکستانی نژاد امریکی 30ملین ڈالر خاموشی سے ترک زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے دے سکتا ہے‘اقوام متحدہ کی اپیل پر یا عمران خاں کی درخواست پر دوسروں ملکوں سے مطلب طلب نہ بھی کی جائے تو بھی صرف پاکستان نژاد بیرون ملک رہنے والے چند گھنٹوں میں 70ملین ڈالر جمع کروا دینگے اقوام متحدہ سے مدد طلب کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کے سب عذر‘ بہانے ختم ہو جائیں گے اور ان کی مداخلت کے نتیجے میں انتخابات بھی بہتر ماحول میں زیادہ قابل اعتماد اور شفاف ہونگے لیکن اس کے بعد پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے لئے مزید کسی اعلان کی ضرورت باقی نہیں ہو گی اور اس کے ساتھ ہی ہمارے پاس چھٹی بڑی عالمی دفاعی مشینری کا دعویٰ اور ’’ایٹمی طاقت‘‘ ہونے کا غرور بھی خاک ہو جائے گا۔ فیصلہ تیرا تیرے ہاتھوں میں ہے؟؟