قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر آئین پاکستان میں 26ویں ترمیم کی منظوری دے دی ہے۔ اس ترمیم کی رو سے کے پی کے میں شامل کیے جانے والے قبائلی اضلاع سے قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ترمیم کے بعد قبائلی اضلاع میں قومی اسمبلی کی نشستیں 12جبکہ صوبائی اسمبلی میں نشستوں کی تعداد 24کر دی گئی ہے۔ ترمیم کا مسودہ قبائلی اضلاع سے منتخب رکن محسن داوڑ نے پیش کیا۔ قومی اسمبلی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی پرائیویٹ رکن کی طرف سے پیش کی گئی ترمیم کو منظور کر لیا گیا ہو۔ بل کے حق میں 282ووٹ آئے جبکہ کوئی ایک ووٹ بھی اس کے خلاف نہیں آیا۔ 342کے ایوان میں حاضر تمام اراکین نے بل کی حمایت کی۔ اس بل نے سٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف کی متعدد تجاویز کو مسترد کر دیا ہے۔ وزیر اعظم نے تمام صوبوں سے التماس کیا ہے کہ وہ قومی مالیاتی کمشن(این ایف سی) کے تحت اپنے حصے کے فنڈز میں سے 3فیصد قبائلی اضلاع کی تعمیر و ترقی کے لیے مختص کر دیں۔ قومی اسمبلی سے 26ویں ترمیم کی اتفاق رائے سے منظوری گزشتہ نو ماہ کے دوران ایوان کی جانب سے قومی احساس ذمہ داری کے تحت انجام دیا گیا پہلا سنجیدہ فیصلہ ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کا طرز عمل اس سلسلے میں لائق تحسین دکھائی دیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے بجا طور پر اس امر کی نشاندہی کی کہ پاکستان کی دشمن قوتیں اس کے بعض علاقوں میں پائے جانے والے احساس محرومی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ فاٹا کے علاقے 71برس تک وفاقی انتظام میں رہے۔ اس دوران انہیں جدید تعلیم،صحت کی سہولیات، روزگار کے مواقع، تفریحی سرگرمیوں کی سہولت اور پورے ملک کے لیے دستیاب عدالتی نظام سے دور رکھا گیا۔ یہ محرومیاں اور ہمسایہ ملک افغانستان میں مسلسل بدامنی اور جنگ نے قبائلی اضلاع میں ایسے گروپوں کو طاقتور بنا دیا جو پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ خصوصاً جنوبی ایشیا میں بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں بلوچستان میں روزانہ دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی واقعہ رونما ہو رہا ہے۔ ایسے واقعات اگرچہ پہلے جیسی شدت نہیں رکھتے مگر اب بھی ان سے نمٹنے کے لیے اپنے ان شہریوں کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت ہے جو پسماندہ رہ گئے ہیں۔ نوے کے عشرے تک وسط ایشیائی ریاستیں سوویت یونین سے آزاد ہو چکی تھیں۔ پاکستان چاہتا تھا کہ ان علاقوں تک تجارتی راہداری بنا کر اپنی مصنوعات کو وہاں متعارف کرائے۔ اسی طرح وسط ایشیائی ریاستوں سے توانائی کے وسائل کو پاکستان تک لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی۔ افغان خانہ جنگی اور پھر امریکی یلغار نے اس سارے عمل میں رکاوٹ ڈال دی۔ اعداد و شمار کی مدد سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ بھارت کی معاشی ترقی ٹھیک اس وقت شروع ہوئی جب امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا۔ اس جنگ نے قبائلی علاقوں کو برے طریقے سے متاثر کیا۔ مقامی آبادی کے پاس روزگار کے ذرائع نہیں تھے، انہیں ایک بار پھر مسلح سرگرمیوں کے لیے استعمال کیے جانے کا خدشہ تھا۔ پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں آپریشن کیے۔ کچھ لوگوں نے ہتھیار ڈالے، کچھ مارے گئے اور کچھ فرار ہو کر افغانستان اور وہاں سے بھارت چلے گئے۔ سکیورٹی فورسز کے کام کرنے کا ایک خاص طریقہ کار ہوتا ہے۔ اس طریقے سے کچھ حلقوں کو شکایات پیدا ہوئیں جن کے ازالے کے لیے وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ہدایات جاری کر دی ہیں۔ تحریک انصاف نے عام انتخابات سے قبل قبائلی علاقوں کو کے پی کے میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ جولائی 2008ء کے انتخابات میں کامیابی کے بعد فاٹا انضمام کا کام کافی تیزی سے آگے بڑھا۔ قبائلی علاقوں میں کچھ عناصر نے اس دوران ریاست اور سکیورٹی اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کر کے نوجوانوں کو ورغلانا شروع کر دیا۔ قبل ازیں فاٹا علاقوں میں عام آدمی کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ اس لیے عام قبائلی انتظامی، سیاسی اور ریاستی امور میں کم دلچسپی ظاہر کرتا تھا۔ قبائلی اضلاع کے لیے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں کی تعداد بڑھانے کے علاوہ اس بار عام قبائلی شہری اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کر سکے گا۔حکومت کا خیال ہے کہ قبائلی اضلاع کی تعمیر وترقی کا عمل شروع کرنے کے لیے فوری طور پر ایک ہزار ارب روپے کی ضرورت ہے۔ یہ رقم آئندہ دس سال کے عرصے میں خرچ کی جائے گی۔ ہر سال ان علاقوں کی ترقی کے لیے ایک سو ارب روپے خرچ ہوں گے۔ گزشتہ 15برسوں کے دوران دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں نے ان علاقوں کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ بڑے پیمانے پر انسان مارے گئے، لوگوں نے اپنے گھر اور علاقوں سے ہجرت کی۔ ان پسماندہ علاقوں میں پہلے ہی کوئی قابل ذکر انفراسٹرکچر موجود نہیں تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے زمانے میں رہی سہی کسر بھی پوری ہو گئی۔وزیر اعظم نے تمام صوبوں سے اپنے اپنے حصے سے تین فیصد دینے کی اپیل کی ہے۔ اس سے مناسب حجم کی رقم جمع ہو سکتی ہے۔ صرف یہ دھیان رہے کہ ترقی کا عمل مقامی باشندوں کی ضروریات کو پیش نظر رکھ کر شروع کیا جائے۔تعمیر کا کام بالکل بنیاد سے شروع کرنا پڑے گا۔ ان علاقوں کی تعمیر کے دوران مقامی تجارتی و معاشی سرگرمیوں کو بھی مربوط کرنے کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔بلاشبہ پاکستان کے کسی ایک علاقے کو نہیں بلکہ پورے ملک کو ترقی کے مساوی مواقع ملنے چاہئیں۔ قبائلی اضلاع میں سیاسی نمائندگی اور تعمیر و ترقی کے ضمن میں تمام جماعتوں کا اتفاق خوش آئند ہے۔ امید کی جانی چاہئے کہ جنوبی پنجاب کی صوبائی حیثیت کا معاملہ بھی معزز اراکین پارلیمنٹ کی اسی ذمہ دارانہ توجہ کا مستحق ٹھہرے گا۔