معروف بینکارشوکت ترین نے نئے وفاقی وزیر خزانہ کی حیثیت سے حلف اُٹھا لیا ہے۔ وہ ایسے وقت میں وزیر بنے ہیں جب معیشت کچھ بہتری کی طرف گامزن ہے۔ بڑے صنعتی شعبہ میں ترقی کی رفتار تیز ہوچکی ہے۔ اسکا کریڈٹ بہرحال حفیظ شیخ کو جاتا ہے جو ایک ماہ پہلے تک اس وزارت کے انچارج تھے۔ دسمبر 2020 میں انہوں نے مشکل گھڑی میں وزارت سنبھالی تھی جب شدید مندی تھی اور ملک دیوالیہ ہونے کے کنارے پر تھا۔ اس پر مستزاد کورونا وبا نے معیشت کی بحالی کے پروگرام کوزبردست دھچکہ پہنچایا۔ سوا سال تک حفیظ شیخ نے بہت تنقید برداشت کی لیکن معیشت کو پٹری پر چڑھادیا۔ کم سے کم آج پاکستان کو یہ خطرہ نہیںکہ وہ بیرونی ادائیگیوں پر نادہندہ ہوجائے گا۔ قومی خزانہ میں اتنے ڈالرز ہیں کہ ملک بیرونی قرضے اور انکا سُود معاہدوں کے مطابق واپس کرسکتا ہے۔ درآمدات کا بل بھی ادا کرسکتا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی پیش گوئی ہے کہ اگلے مالی سال میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو چار فیصد ہوگی۔ یہ محتاط اندازہ ہے۔ اگرملک میں سیاسی استحکام رہا اور شوکت ترین کی معاشی پالیسی کام دکھا گئی تو ترقی کی شرح پانچ فیصد بھی ہوسکتی ہے۔ ویکسی نیشن کے باعث کورونا وبا کا منفی اثر کم ہوتا جائے گا۔ تاہم کوئی ماہر معیشت یا سیاستدان جادُوگر نہیں ہوتا جو ایک سال یا چند برسوں میں معیشت کو چار چاند لگا دے۔ وزیر خزانہ کی تبدیلی سے مختصر مدت میں معمولی سا فرق تو پڑ سکتا ہے لیکن اصلی ‘ حقیقی معاشی ترقی کے لیے اسکی بنیاد کا مضبوط ہونا ضروری ہے۔ یہ کام دس پندرہ برس کی مسلسل اچھی معاشی پالیسی اور مستقل مزاجی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ قومی معیشت کی پانچ چھ بنیادی کمزوریاں ہیں جنہیں ٹھیک کیے بغیر ہم معاشی گرداب سے باہر نہیں آسکتے۔ اسکی زراعت پوری طرح ترقی یافتہ نہیں۔فی ایکڑ پیداوار بھارت سے بھی نصف ہے۔ اسکا صنعتی شعبہ بہت چھوٹا ہے۔ملک کا خوشحال طبقہ اشیائے تعیش پراپنامال خرچ کرتا ہے ‘ اسکی بچت اور سرمایہ کاری کی شرح بہت کم ہے۔ یہ خوشحال طبقہ ریاست کو اتنا ٹیکس نہیں دیتا جتنا پاکستان ایسے دیگر ممالک میں امیر اور متوسط طبقہ کے لوگ دیتے ہیں۔پاکستان کی حکومت کے اخراجات اسکی آمدن سے دوگنا ہیں۔ ا س لئے اسکو ملکی اور غیرملکی قرضوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ ان قرضوں کے باعث وقفے وقفے سے ملک میں معاشی بحران آتے رہتے ہیں۔ملک کی آبادی میں دوسرے ملکوں کی نسبت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اس بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے ریاست کو زیادہ قرض لینا پڑتا ہے۔ فی الوقت پاکستان کی ہچکولے کھاتی معیشت کو مکمل ڈُوبنے سے اُن بھاری رقوم نے بچایا ہُوا ہے جو بیرون ممالک میں محنت کرنے والے پاکستانی اپنے وطن بھیجتے ہیں۔ ان رقوم کو معاشی زُبان میں ترسیلاتِ زر کہا جاتا ہے۔ تیس جُون کو ختم ہونے والے مالی سال میں بیرون ممالک سے بھیجے جانے والی ترسیلات زر کا تخمینہ لگ بھگ چوبیس ارب ڈالر ہے۔ یہ رقم تقریباً اس کمائی کے برابر ہے جو ہم اس مالی سال میں برآمدات سے حاصل کریں گے۔ہماری معیشت میں صنعت کی بجائے تجارت اور خدمات کا حصہّ بہت زیادہ ہے۔یعنی 61 فیصد۔ ملک کی داخلی پیداوار میں تھوک اور پرچون تجارت کا مجموعی حصہ چونتیس فی صد ہے۔ یہ تجارت بھی اس لئے خوب پھل پھول رہی ہے کہ لوگوں کی جیبوں میں وہ مال ہے جو ترسیلاتِ زر کے باعث آیا ہے۔لیکن ملک کو پائیدار معاشی بنیادوں پر استوار کرنے کی غرض سے صرف بیرونی ترسیلاتِ زر پر انحصار کافی نہیں۔ ایک مستحکم معیشت کے لیے ضروری ہے کہ اُس میں زرعی اور صنعتی پیداوار کاحصہ زیادہ ہو۔ہمیشہ سے پاکستان کی معیشت کی بڑی کمزوری رہی ہے کہ اسکی پیداواری صلاحیت بہت کم ہے۔ اسوقت زراعت کا مجموعی داخلی پیداوار میں حصہ تقریباً اُنیس فیصد ہے جبکہ صنعت کا بیس فیصد۔ گزشتہ مالی سال میںپاکستان میںکُل بچتیں مجموعی داخلی پیداوار کے دس فیصد کے برابرتھی۔ یہ بہت کم شرح ہے۔ بھارت میں یہ شرح تیس فیصد کے برابر ہے‘ ہم سے تیس فیصد زیادہ۔لوگ بچت کریں گے تو سرمایہ کاری ہوگی۔ جب ساری آمدن کھا پی جائیں گے‘ عیش و عشرت میں اُڑا دیں گے توکارخانے لگانے کو رقم کہاں سے آئے گی؟ قومی بچتوں کی شرح بڑھانے کے لیے حکومت کو آگاہی مہم چلانی چاہیے جس سے فوری طور پر نہیںتو طویل مدت میں ضرور فرق پڑے گا۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے امیر اور اعلیٰ متوسط طبقات دولت ملک سے بیرون ملک منتقل کرتے رہتے ہیں۔ یہ جو منافع پاکستان میں کماتے ہیں اُس سے دبئی اور لند ن میں جائدادیں خریدتے ہیں۔اسی طرح وفاقی اور صوبائی حکومتیںترقیاتی کاموں کی مد میںہر برس سینکڑوں ارب روپے خرچ کرتی ہیں۔ اسکا ایک بڑا حصہ اعلیٰ سرکاری افسر‘ سیاستدان اور ٹھیکیدار خرد برد کرلیتے ہیں ۔ حرام کے بنائے ہوئے اِس مال کا بیشتر حصہ بیرون ملک منتقل کردیا جاتا ہے۔ اِنہیں یہ کام کرتے ہوئے کئی دہائیاں گزر گئیںجسکے نتائج معاشی بدحالی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔ سرمائے کی بیرون ِملک منتقلی روکنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ آج تک کسی حکومت نے اسے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ صنعتکاری کے راستے میں بدعنوان افسر شاہی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔اس پر وہ مثل صادق آتی ہے کہ شہر بستا نہیں‘ بھیک مانگنے والے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔کوئی کارخانہ لگانے کا سوچے تو پچیس تیس محکموں کے افسروں کو رشوت دیے بغیر وہ اپنا کام نہیں کرسکتا۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں پیداواری عمل تیز ہو تو سرمایہ کاروں کو اِن جونکوں سے نجات دلانا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو کوئی ایسی پالیسی متعارف کرنی چاہیے کہ جب کوئی شخص نیا کارخانہ لگائے تو چند برس تک کوئی سرکاری محکمہ اسکے قریب نہ جائے۔سرکاری افسر اور اہلکار قانون نافذ کرانے کے بہانے ان جگہوں پر بھتہ لینے جاتے ہیں۔بہت اچھا ہوگا کہ حکومت سرمایہ کاروں کو صنعتی علاقوں میں پہلے آٹھ دس سال کے لیے بلامعاوضہ پلاٹ دے۔ جب کوئی فیکٹری کام شروع کردے اور منافع کمانے لگے تب اس سے پلاٹ کی لیز (پٹے)وصول کی جائے۔ یہی سہولت بیرونی سرمایہ کاروں کو بھی دی جائے تاکہ انہیں پاکستان میں انڈسٹری لگانے کی ترغیب ہو۔ صنعتی شعبہ کی ترقی کابہت انحصار ہنر مند محنت کشوں پر بھی ہے۔ ہمارے ہاں مزدور تو ہیں لیکن ہنر مند وں کی تعداد کم ہے۔ حکومت کو فنی تعلیم پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔فنی تعلیم کے زیادہ ادارے کھولنے چاہئیں۔ ہنر مند افراد ملکی پیداوار میں اضافہ کریں گے اور بیرون ممالک میں جا کر بھی روزگار کما سکتے ہیں۔ جب تک پاکستانی معیشت کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے کوئی بھی ماہر معیشت ایسی ترقی اور خوشحالی نہیں لاسکتا جو پائیدار ہو۔ اسوقت تو کسی بھی وزیرخزانہ کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ معیشت کو کم سے کم وہ آکسیجن ملتی رہے جس سے یہ زندہ رہے۔ اسکی مکمل صحت یابی تودُور کی بات ہے۔