مجھ سا کوئی جہان میںنادان بھی نہ ہو کر کے جو عشق کہتا ہے نقصان بھی نہ ہو کچھ بھی نہیں ہوں میں مگر اتنا ضرور ہے بن میرے شاید آپ کی پہچان بھی نہ ہو جی جناب ایسا ہی ہے، نیوزی لینڈ کے انکار کے بعد اب برطانیہ کی طرف سے بھی کورا جواب کہ ان کی کرکٹ ٹیم پاکستان نہیں آسکتی۔ بہانہ وہی سکیورٹی کا۔ ان کی آپس کی یکجہتی متوقع تھی بلکہ نیوزی لینڈ کو تو آگے لگا کر یہ سب کچھ کیا گیا۔ ہم جو مرضی کرلیں وہ ہمیں پکے مسلمان ہی سمجھتے ہیں۔ انہیں ہماری تابعداری پر بالکل یقین نہیں۔ اس حوالے سے سجاد میر صاحب نے بہت فکر انگیز کالم لکھا ہے۔ کوئی کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھے تو اس کی مرضی وگرنہ عدو نے تو ہم سے کچھ بھی مخفی نہیں رکھا اور یہی ہمارے دین اور قرآن عظیم کی حقانیت ہے کہ یہ سب ایک ہیں کہ برابر ان کے پاکستان نہیں ایک نظریہ ہے کہ جس کے ماننے والوں نے دنیا کی سپر پاور کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔ وہیل مچھلی اگرچہ پتھر چاٹ کر واپس ہو چکی ہے مگر اپنی ناکامی پر وہ ایسے تلملا رہی ہے کہ پورے سمندر میں بھونچال آیا ہوا ہے۔ دوسری بات یہ کہ مگر مچھوں سے ہمارا واسطہ ہے کہ جس کا بیر مشہور ہے کیسی کمال بات ہے کہ وہ بے یارومددگار کالی پگڑیوں اور ٹوٹی چپلوں والے جو اپنے لیے سہارا بھی تلاش نہ کرسکے‘ اب ان کے سہارے کتنی طاقتیں یک جا ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ کہاں شعر یاد آیا: سخت مشکل تھی مگر نام خدا کے آگے رکھ دیئے ایک طرف ہم نے سہارے سارے کتنے بے وقوف ہیں جو ساری دنیا کو سادہ سمجھتے ہیں اور سکیورٹی کو بہانہ بنا رہے ہیں اور بہانہ بن نہیں رہا۔ کوئی ثبوت ہو تو ملے۔ یہ سب کچھ انہیں اپنے ہی خفیہ اور جاسوس نیٹ ورک سے پتہ چلا۔ نیوزی لینڈ کا یہاں پہنچ کر اور عین کھیل سے پہلے انکار اور واپسی باقاعدہ منصوبہ بندی کا حصہ ہے تاکہ ہمیں احساس دلایا جائے کہ ہم سے کون ناراض ہے اور اگر وہ ناراض ہو تو آپ کا کھیل تماشہ بھی بند۔ آپ کو تنہا کر کے اچھوت بنا دیا جائے گا۔ یہ معاملہ صرف کھیل تک محدود نہیں رہے گا۔ وہ اب بنیے کو تیار کرنے کی کوشش کرے گا مگر بنیا سوچ سمجھ کر گرے گا۔ اس بات کو ایک طرف رکھ دیں کہ یہ انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے ایک جھٹکا ہے۔ اصل میں مسلمان کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں سنجیدگی سے اس معاملے کو قوم کے سامنے رکھنا اور یکجہتی پیدا کرنی ہے کہ ہم سب مل کر اپنا لائحہ عمل طے کریں۔ اس حوالے سے حکومت کی چالیں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ فی الحال ہم مہنگائی میں بے تحاشہ کمی کو بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم اوپر کی سطح پر اپنا قومی تشخص بنانے میں بھی کامیاب نہیں ہورہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچئے قصور کس کا ہے۔ آخر آپ سیاسی بحران کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ آپ زمینی حقائق سے آنکھیں کیوں چرا رہے ہیں۔ کنٹونمنٹ انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ اگر بلدیاتی الیکشن ہو گئے تو کیا ہوگا۔ لوگوں کوریلیف دے کر ان کے دل جیتنے کی بجائے اپنی ساری توقعات ووٹنگ مشین کے ساتھ وابستہ کرنا کوئی عقل مندی نہیں۔ ایسا جبر ہوا تو وہی ستر جیسا بحران پیدا ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے خلاف صف آرا ہونا کیا ثابت کر رہا ہے جبکہ اس کے سربراہ کو لانے میں آپ ہی شریک کار تھے۔ سیدھی بات یہ کہ مائنس اپوزیشن والا معاملہ چلنے کا نہیں۔ اس دعوے کو بھی سب نے قبول کرلیا تھا کہ ساری اپوزیشن چور ہے۔ اور یہ کہ اب لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی‘ کرپشن رک جائے گی اور روزگار بڑھے گا اور سارے دلدر دور ہو جائیں گے اور پھر ترقی معکوس سب کے سامنے ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ کہ اب بھی وزرا کا یہ کہنا کہ معاشی بحالی حیران کن ہے۔ اس مشکل صورت حال میں کہ عالمی تناظر میں ہم تنہا ہو رہے ہیں، کم از کم سیاسی رہنمائوں کے ساتھ مل بیٹھیں۔ خاص کر ملک کی بقا اور سلامتی پر سب کے لیے ایک سمت متعین کی جا سکے۔۔ اپوزیشن لیڈروں کا ردعمل یقینا افسوسناک ہے مگر اس رویے کا محرک تلاش کرنا پڑے گا کہ ہم منہ اٹھا کر ہر کسی کو غدار قرار دیئے جاتے ہیں: مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا سمجھ سے بالاتر ہے کہ الیکشن تو ابھی بہت دور ہیں مگر حکومت اتنی بے چین اور مضطرب ہے کہ ابھی ووٹنگ مشین میں سب کو ڈال دیا جائے۔ لوگ پریشان ہیں کہ حکومت ان کے لئے کچھ کرے ۔ افغانستان کا ساتھ دینا بہت اچھی بات ہے مگر مہنگائی کے ستائے ہوئے لوگ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ وہ صبح اٹھتے ہیں تو کوئی نہ کوئی خوفناک خبر ان کا منہ چڑا رہی ہوتی ہے۔ پتہ چلتا ہے کہ بجلی کے بلوں میں ایڈوانس ٹیکس شامل کردیا جائے گا۔ یہ خبر کیا کرنٹ سے کم ہے۔ ایک لمحے کے لیے آپ ہائیکورٹ کی بھی سن لیں کہ اسمبلیوں کے ہوتے ہوئے آرڈیننس کا کوئی جواز نہیں۔ باقی دو سال بھی اپوزیشن کا ماتم کرتے نہیں گزرنے چاہیئں۔ وہی جو ہارون رشید کہا کرتے ہیں کہ کسی کی ناکامیوں پر زندہ نہیں رہا جا سکتا۔ وقت آ چکا ہے کہ سیاسی مخالفت برائے مخالفت ترک کر کے قومی یکجہتی پیدا کی جائے اور اپنے خلاف ہونے والے تعصب کا توڑ کیا جائے اور خارجی سمت متعین کی جائے: سوچ لو جو سوچنا ہے ہم نبھائیں گے اسے دوستی باقی رہے یا دشمنی باقی رہے