آج میں پاکستان کی اعلیٰ ترین قیادت سے چند گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔آپ کا عمومی رویہ دوسروں سے کیسا بھی رہا ہو‘ لیکن آپ سب اس بات سے اتفاق کریں گے کہ اپنے اردگرد ساتھیوں‘ اپنے سینئرز اور اپنے ماتحتوں کے ساتھ تعلقات ہی آپ کی قوت کا بنیادی راز ہیں۔ یہ درست ہے کہ جیسے جیسے انسان ترقی کی منازل طے کرتا ہے اس کی ذہنی اور پیشہ وارانہ بصیرت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس کی تدبیر‘ حکمت عملی اور سوجھ بوجھ میں بہتری آتی جاتی ہے۔ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ انسان کی زندگی اور پیشے میں کامیابی کا اصل دار و مدار اس کی شخصیت کی عمومی نشوونما پر ہوتا ہے۔ ہر شخص کو ذہنی ‘اخلاقی‘ جسمانی اور معاشرتی نشوونما میں مناسب توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کی اخلاقی نشوونما اس کی شخصیت کا مرکز ہوتی ہے۔ ایمانداری‘ سچائی‘ طمانیت اور انکساری اس کے کردار کی انتہائی اہم خصوصیات ہیں۔ مشکل حالات میں اگر نقصان پہنچنے کا احتمال ہو تب بھی ایمانداری ہمیشہ دوسرے آدمی کو نرم کردیتی ہے۔ سچائی اچھے کردار کی نشانی ہے۔ اس طرح آپ جو کچھ حاصل کرتے ہیں یا آپ کے پاس ہوتا ہے وہ آپ کو مطمئن ہی نہیں ہر قسم کے لالچ اور بسیار طلبی سے دور رکھتا ہے۔ قیادت کرنے کی صفت ایک حد تک پیدائشی ہوتی ہے، قیادت کرنا ہنر ہے نہ کہ ایک سائنس۔ عوام ایک لیڈر میں اچھے کردار کے علاوہ حتمی فیصلہ کرنے کی صلاحیت‘ بے باکی اور مشکل حالات میں نہ گھبرانے کی خوبیاں پسند کرتی ہے۔ میں سب سے پہلے عمران کی بات کرتا ہوں۔ کوئنز لینڈ کے خلاف جس میچ میں وہ ایک میڈیم پیسر سے فاسٹ بولر بن گئے۔ 87ء میں ان کا جنرل ضیاء الحق کے کہنے پر ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لینا‘ پھر 92ء میں ایک ایسے ورلڈکپ میں جہاں جیت کی کوئی امید نہ تھی اچانک مطلع صاف ہوتا چلا گیا۔ اپنی والدہ سے محبت کے اظہار کے طور پر شوکت خانم اسپتال کیلئے فنڈ ریزنگ اور اس پروجیکٹ کی تعمیر و تکمیل‘ پھر ایک طویل سیاسی جدوجہد خود کو اس مشکل میدان میں منوانے کی کامیاب کوشش اور بالآخر اقتدار تک پہنچنے کا سفرآپ کو یقین تو دلاتا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی کرم فرمائی انسان کو کیسے کامیابی دلاتی ہے۔ آصف علی زرداری کی مثال لیں‘ بینظیر بھٹو سے شادی کے بعد وہ یکدم سیاسی میدان کے ایک اہم کھلاڑی بن گئے۔ عمران جتنی محنت کے عادی ہیں‘ مایوس ہونا ان کی لغت میں نہیں۔ اس طرح آصف زرداری کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہمیشہ چوکنا بھی رہتے ہیں اور اپنی ہر چال بہت ذہانت سے لیکن محتاط ہوکر چلتے ہیں۔ شریف خاندان کو دیکھیں یہ پاکستان میں گمنامی کی زندگی گزارنے والا خاندان تھا‘ لیکن آج اسے کیسا قابل رشک عروج حاصل ہے۔ شہباز شریف نے خود کو بتدریج ایک زبردست منتظم کے طور پر منوایا۔ وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنا ان کا خواب تھا۔ ان کی یہ خوبی ہے کہ وہ آصف علی زرداری کی طرح آگے بڑھنے سے پہلے ہی اپنے اہداف اور ترجیحات کا تعین کرلیتے ہیں اور ان کو نافذ کرنے کی حکمت عملی بھی ان کے ذہن میں ہوتی ہے۔ اپنے اہداف اور ترجیحات کا تعین لیڈر کی خوبی ہونی چاہئے۔ مجھے یہ مستعدی ان تینوں شخصیات میں نظر آتی ہے۔ گلاس کے بھرے ہوئے حصے پر نگاہ رکھی جائے اور خالی حصہ بھرنے کی کوشش کی جائے۔ سب پاکستانی چاہتے ہیں کہ انتہا پسندی اور عصبیت کو دباکر معاشرے کو پاک کیا جائے۔ ہمیں بہتر آبپاشی اور زراعت‘ صنعتی ترقی کیلئے بالواسطہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ اور درآمدات میں اضافہ اورپاکستان کو تجارت اور توانائی کے علاقائی مراکز میں تبدیل کرنا ہوگا۔ غربت کے خاتمے ملازمتوں میں اضافے اور قیمتوں میں کمی کے اہداف حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ ہر شہری کو بجلی‘ پینے کا صاف پانی اور قدرتی گیس فراہم کرکے اس کا معیار زندگی بلند کرنا ہوگا۔ تعلیم اور صحت کو فروغ دے کر اپنے انسانی وسائل کو ترقی دینے کیلئے ہمیں اپنی تمامتر توانائیاں صرف کرنی ہوں گی۔ ہمیں اپنی جمہوریت کو مستحکم اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنانا ہوگا۔ بھٹو صاحب جب 1972ئمیں شملہ گئے تو مذاکرات کے کئی سیشنز ہوئے۔ بھارتی وفد کی قیادت بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کررہی تھیں۔ مذاکرات آگے بڑھے۔ دونوں فریقین کی اپنی اپنی شرائط تھیں۔ معاملات الجھ گئے۔ بات پوائنٹ آف نوریٹرن تک آگئی۔ اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ مذاکرات ختم کردیئے جائیں۔ اندرا گاندھی دہلی جانے اور ذوالفقار علی بھٹو پاکستان واپس لوٹنے کی تیاری کرنے لگے۔ کانفرنس کیلئے کی جانے والی تمام تیاریاں Windup کی جارہی تھیں۔ اچانک بھٹو صاحب اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بھٹو صاحب گزرے چند گھنٹوں میں بہت الجھے دکھائی دے رہے تھے متفکر تھے۔ پاکستان کے 90 ہزار فوجی بھارت کی قید میں تھے۔ ان کی رہائی کا مسئلہتھا۔ کچھ علاقوں میں دونوں ممالک کی فوج کو واپس اپنی اپنی پوزیشنوں پر جانے کا معاملہ تھا۔ کئی اور امور بھی تھے۔ جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے باعث سوالیہ نشان بنے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ حل طلب مسائل تھے۔ بھٹو صاحب اپنے کمرے میں تشریف لے گئے‘ وہاں سے انہوں نے ہاٹ لائن پر اندرا گاندھی کو کال ملائی۔ دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اب ہاٹ لائن پر تھے۔ بھٹو نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے اندرا گاندھی سے کہا کہ آپ سمجھتی ہیں کہ آپ دہلی اور میں بے نتیجہ مذاکرات کے بعد اسلام آباد لوٹ گیا تو تاریخ ہمیں کن الفاظ سے یاد رکھے گی کہ برصغیر کے دو بڑے ممالک کے وزرائئے اعظم مذاکرات کی میز سے ناکام لوٹ گئے۔ ہم ناکام ہوگئے تو دونوں ممالک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ یہ مذاکرات دوبارہ ہوں آج ہوں گے اور اسی وقت ہوں گے۔ دوبارہ تمام تیاریاں کی گئیں۔ اس اتفاق رائے کی دستاویز کو ہم شملہ معاہدہ کہتے ہیں۔ یہ پوری بات مجھے سابق وزیراعظم معراج خالد نے بتائی تھی جن سے میری دیرینہ یاد اللہ تھی۔آج میں سوچ رہا ہوں کہ عمران‘ زرداری اور شہباز شریف کیا اسی اسپرٹ سے مل بیٹھ کر کسی متفقہ فارمولے پر نہیں پہنچ سکتے۔