ضرورت سے زیادہ پیارے معین نظامی ! میاں خوش ہو جاؤ کہ یہ تمھارے نام میرا آخری خط ہے۔ مَیں نے سوچا تم اکیلے کب تک میرے خطوط اور شکوک کا بوجھ اٹھاؤ گے، جب کہ تمھیں اپنے اسی ناتواں وجود کے ساتھ مختلف عہدوں شہدوں کے نخرے بھی اٹھانا ہوتے ہیں لیکن میاں یہ مت سمجھنا کہ یہ اورینٹل پہ بھی میری آخری تحریر ہے۔ مجھ میں اور تم لوگوں میں فرق یہ ہے کہ تم لوگ اورینٹل کے اندر بیٹھے ہو اور اورینٹل میرے اندر چوکڑی مارے ہوئے ہے۔ آرام سے بیٹھا رہتا تو مَیں بھی شاید چَین کی بانسری بجاتا۔ مَیں تو جب بھی اس کے صدر دروازے سے داخل ہوتا ہوں، یہ پنجوں کے بل کھڑا ہو کے میرے کانوں پہ قبضہ جما لیتا ہے۔اس لیے مَیں اگر تمھارے نام نہیں لکھوں گا تو کالج کی سُرخ اینٹوں کے نام لکھوں گا… یہاں کے کبوتروں کے نام لکھوں گا… تنگ و طویل راہداریوں کے نام لکھوں گا… مشرقی اور مغربی لانوں کے نام الگ الگ لکھوں گا… یہاں کے بے نام طلبہ کے نام لکھوں گا… اُردو بازار کو جاتے رستے کے نام لکھوں گا… انارکلی اور بانو بازار کو مختلف مقاصد کے لیے اُٹھتے قدموں کے نام لکھوں گا…چالیس سال سے اورینٹل کنارے آتے جاتے بے بس، بے رس لوگوں کو گنّے کا رَس بیچنے والے کے نام لکھوں گا… اورینٹل میں پروان چڑھنے، نہ چڑھنے والی محبتوں کے نام لکھوں گا۔ تمھیں بتاتا چلوں کہ یہاں ایک شدید قسم کی محبت مَیں نے بھی کی تھی لیکن بری طرح ناکام رہا۔ پھر مَیں نے اورینٹل سے محبت شروع کر دی۔ قلم اور کتاب کو محبوبہ بنا لیا۔ اس محبت میں اتنا بھاگا کہ اکیسویں صدی کے اکیسویں سال سے بہت پہلے اکیس کتابوں اور اکیسویں سکیل کے ہدف کو بھی جا لیا۔ یہ اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ آئے دن اس ادارے کو اکیس توپوں کی قلمی سلامی پیش کرتا رہتا ہوں۔ یہ بھی اسی محبت کا کرشمہ ہے کہ یہاں کی گھاس بھی مجھے جاننے لگی ہے۔ کبھی کبھی تو ایڑیاں اٹھا کے مجھے پہچاننے کی کوشش کرتی ہے۔ درختوں کے پتے مجھے دیکھ کے تالیاں بجاتے ہیں۔ اگرچہ یہ وہ پتّے نہیں، جن کا ہمیں پتا ہے، یہ شاید ان کی ہزارویں نسل میں سے ہیں، پھر بھی نبھانے کا ہنر جانتے ہیں۔ میاں میرا سب سے بڑا دکھ یہ ہے کہ آج تک اس علمی ادارے میں فلمی طرز کی دشمنیاں نسل در نسل پروان چڑھتی ہیں۔ تم خود بتاؤ کہ یہ عربی والے عزیزانِ جُبہ و دستار عوام الناس میں قرآن کی زبان عام کرنے کے لیے جھگڑتے ہیں؟ کیا فارسی والے سعدی و رومی کے افکار اور غالب کے نقش ہائے رنگ رنگ کی خاطر بر سرِ پیکار ہیں؟کیا ان پنجابی والوں کے درمیان بُلھے شاہ اور میاں محمد بخش کے شعری آہنگ کی بنا پہ اختلاف ہے؟ کیا یہ میرے اُردو والے قومی زبان کے نفاذ کے لیے رنجیدہ ہیں؟ سچ کہتا ہوں کہ مَیں نے مظہر معین جیسا نستعلیق شخص اپنی زندگی میں نہیں دیکھا، ظہور اظہر کے منھ سے پھول جھڑتے تھے۔ سہیل احمد خاں ہمارے لیے غیر ملکی ادب کا رس نکال کے لایا کرتا تھا، خواجہ زکریا کے شائستہ لہجے نے اُردو ادب کی تاریخ ہمارے ذہنوں میں کاشت کر دی۔ اکرم شاہ کی اقبالی اُلفت پہ قربان ہونے کو جی مچلتا تھا،آفتاب اصغر کی گفتگو میں مختلف زبانوں کی شیرینی گھُلی ملی تھی۔ شہباز ملک پنجابی کے فروغ کے لیے پھاوا ہوا پھرتا تھا ، اسلم رانا باقی رانوں سے بہت مختلف تھا۔ غرض یہ کہ تحسین فراقی کا چہار زبانی مطالعہ، فخر نوری کا گلے ملتا خلوص، سعید بھُٹا کی پنجابی پرستی، نبیلہ رحمان کی ملائم ہستی، محمد کامران کی خوش گفتاری، زاہد منیر عامر کی دل بستہ حلیمی، سلیم مظہر کی گداز محبت اور سب سے بڑھ کے تمھاری قاتل مسکراہٹ، جو مجھ جیسے بھوتوں کا بھی من موہ لیتی ہے، جانے پریاں اس کی تاب کیسے لاتی ہوں گی؟ تم مجھے بھلے آدمی دکھائی دیتے ہو ذرا ان سب کی ’’جامعہ تلاشی ‘‘لے کے بتاؤ کہ ان محبت بھرے لوگوں کے اختلافات ذاتی تھے یا کائناتی؟ میاں! اس ادارے کے ہر پھیرے میں ایک نیا دکھ تازہ ہو جاتا ہے۔ ایک وہ مرحوم وولنر ہاسٹل ہوتا تھا۔ ہم نے دوستوں کے ہمراہ اپنی زندگی کے سب سے قیمتی لمحات اور بے فکری و تعیش والا زمانہ اسی قریے میں بسر کیا۔ اب سنا ہے اس نام کی کوئی عمارت تمھارے قرب و جوار میں نہیں۔ ستم کی حد یہ کہ ان حجروں کے نمبر بھی کسی ستم ظریف کے حکم سے بلا وجہ تبدیل کر دیے گئے ہیں، جن سے ہم اور ہمارے بہت سے پیش روؤں کی قیمتی یادیں وابستہ تھیں۔ وہ میاں وولنر جس سے یہ سرائے موسوم ہے، سنا ہے اسی عمل کے خدشے میں کب سے پتھر کا ہو چکا ہے۔ اس شاہراہ سے گزروں تو گاہے ماہے مجھے دل والا دُکھڑا سنانے کے لیے روک لیتا ہے۔ باتیں کرتے کرتے اس کی ویران آنکھوں میں جھانکتا ہوں تو ہوشیار پور کے طفلِ طفیل کا وہ شعر شدت سے یاد آ جاتا ہے: خشک آنکھوں سے عمر بھر روئے ہو نہ جائے کسی کی رسوائی کبھی کبھی منھ میرے کان کے قریب لا کے خوف و حیرت کے ملے جلے جذبات کے ساتھ کہتا ہے کہ عزیزی! مَیں تو یہاں کے اہلِ اختیار و استعمار کے رویوں سے پہلے ہی بہت سہما ہوا تھا، پتہ نہیں انھوں نے میرے سامنے توپ و تفنگ اور لڑاکا جہاز کس مقصد کے لیے نصب کرا دیے ہیں؟ اگر میری دن رات کی سنگت کو یہ کبوتروں کا ٹولہ بھی نہ ہوتا تو مَیں کب کا اس شاعر کے تعاقب میں جا چکا ہوتا ، جس نے اہلِ شور وشغب کو برملا خبرار کر دیا تھا: تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ اب تو لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ تم اپنے گھر کے اردگرد والے مال پلازے چھوڑ کے انارکلی کے اُجڑے پُجڑے بازار میں کیوں کھجل ہوتے پھرتے ہو؟ مَیں انھیں کیسے بتاؤں کہ یہاں کتنے خزانے دفن ہیں، مَیں تو یہاں قدم بھی پھونک پھونک کے رکھتا ہوں کہ پاؤں کسی کہانی کے اوپر نہ جا پڑے، بلکہ اب تو من کرتا ہے کہ اپنی موٹر میاں عدیل کے سول لائنز والے مدرسے میں کھڑی کر کے کرشن چندر کے ہندو ہاسٹل والے رستے پر پا پیادہ و پا برہنہ اس ادارے تک آیا کروں۔ رستے میں کہیں سے ناصر کاظمی کی اداسی اٹھا لوں اور کہیں سے صوفی تبسم کی گلاسی۔ مَیں جب کبھی اندر کی آنکھ سے اس تین فرلانگ راستے پہ نظر کرتا ہوںتو کہیں منٹو کا مقدمہ پڑا دکھائی دیتا ہے اور کہیں آرنلڈ کا فلسفہ۔ کہیں اقبال کی سمٹی سمٹائی خودی تو کہیں پطرس کا بکھرا پڑا جغرافیہ، کہیں مولوی شفیع کی تحقیقات تو کہیں حافظ شیرانی کی لسانیات۔ کہیں فیض الحسن سہارنپوری کی انا تو کہیں مولانا آزاد کا اسلوب۔ کہیں کنہیا لعل کپور کی شرارتیں تو کہیں بیدی کی بجھارتیں۔ کہیںگول باغ تو کہیں چپٹی تاریخ… مجھے تو اس صورتِ حال کا بھی خدشہ ہے کہ: مَیں کوچۂ ’حبیب‘ میں بھی سر کے بَل گیا