ایک رپورٹ کے مطابق تمام تر سہولیات کے باوجود پنجاب کے محکمہ تعلیم کی آخری سہ ماہی کی کارکردگی کی 36اضلاع کی درجہ بندی میں سابق خادم اعلیٰ پنجاب کے آبائی شہر لاہور کا درجہ21ویں نمبر پر آیا ہے۔ شہباز شریف گزشتہ 10برسوں سے پنجاب پر حکمرانی اور’’ پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘‘ کا نعرہ لگاتے رہے، گزشتہ دنوں اپنی انتخابی مہم کے دوران میاں شہباز شریف نے راجن پور کے عوام کو دانش سکول اور عالمی معیار کی تعلیمی سہولیات کی فراہمی کی نوید سنائی تھی ، جب کہ زمینی حقائق ان کے دعوئوں کے برعکس چغلی کھا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب کے 6514سکولوں کی عمارتیں خستہ حال ہیں تو 5486سکولوںمیں بچوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ خادم اعلیٰ پنجاب کی تعلیم کے شعبہ میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ 10سال کی حکمرانی کے باوجود پنجاب میں 9فیصد سکول ایک کمرہ پر مشتمل ہیں۔ یہاں تک کہ مسلم لیگ کے مضبوط قلعہ لاہور جہاں خادم اعلیٰ انگلی کی جنبش سے افسروں کو معطل کیا کرتے تھے ان کی ناک کے تلے محکمہ تعلیم کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے ۔ مخالفین میاں شہباز شریف پر پنجاب کا 70فیصد بجٹ لاہور میں خرچ کرنے کا الزام لگاتے رہے ہیں جبکہ لاہور میں تعلیم کی یہ حالت ہے کہ وزیر اعلیٰ کے شہر کا تعلیمی درجہ بندی میں 21واں نمبر ہے۔ سابق حکمرانوں کی تعلیم پر تو جہ کاعالم یہ تھا کہ پنجاب میں 8سال میں 10ہزار سکول بند اور300نجی شعبہ کے حوالے کر دیے گئے ۔یہاں تک 8ہزار نان فارمل کاغذی سکولوں کے نام پر سرکاری خزانہ سے اساتذہ کو تنخواہیں جاری کی جاتی رہی ہیں۔ بہتر ہو گا کرپشن کے انسداد کے ادارے محکمہ تعلیم میں بدعنوانی کی تحقیقات کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں تاکہ تعلیم کی حالت سدھارنے کے اقدامات کیے جا سکے۔