موج میں آ کر جب بہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں تنہا تنہا کیوں رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں سبز رتوں کی جھلمل میں جب شاخیں پھول اٹھاتی ہیں تنہا تنہا کیوں رہتے ہیں بادل چاندا ہوا اور میں آپ سوئے آسمان دیکھتے ہیں تو یقینا شکلیں بدلتے ہوئے بادل‘ ان میں سے جھانکتا ہوا چاند یا پھر دل کی دھڑکن کو محسوس کرتا ہوا آپ کو اپنا وجود سب کچھ اچھا لگتا ہے مگر اس وقت جب آپ آزاد ہوں اور آپ کا تخیل پرواز کرے۔ ظاہر یہ نظارہ کھڑکیوں سے کیا جائے تو اس کا تاثر بہت مختلف ہوتا ہے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں کہ قدرت کے مناظر بھی ہمارے بغیر تنہائی کا شکار ہیں۔ یہ تو بات ہماری کائنات کی ہے شہزاد احمد نے تو جنت کے حوالے سے غالب کی زمین میں ایک شعر منفرد سا کہہ دیا تھا: پھر دکھاتا ہے مجھے جنت فردوس کے خواب کیا فرشتوں میں ترا دل نہ لگا میرے بعد اب تو ہمارے ساتھ عجب ہوا کہ ہمیں گھروں میں قید کر دیا گیا۔ پورا شہر ہی لاک ڈائون ہو گیا۔ نہ کوئی آئے اور نہ کوئی جائے۔ یکایک مجھے خیال آیا کہ ہم پرندوں کو قید کر کے انہیں petsکا نام دے دیتے ہیں اور پھر ان کی آوازوں سے لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم اسے مشغلہ کہتے ہیں اور پرندوں سے محبت گردانتے ہیں۔ انہیں اپنی خوشی کا باعث بناتے ہوئے سب کچھ بھول جاتے ہیں کہ ہم نے انہیں ان کی فطری آزادی سے محروم کر دیا ہے۔ ایک مرتبہ میں نے بھی آسٹریلین طوطے رکھے اور اپنی دلی کیفیت کا اظہار توحید شہزاد سے کیا جو شہزاد احمد کے چھوٹے بیٹے ہیں اور انہوں نے کافی سارے آسٹریلین طوطے رکھے ہوئے تھے۔ اس نے ہمیں تسلی دیتے ہوئے بتایا تھا کہ میں فکر نہ کروں یہ طوطے نسل در نسل قید رہ کر اڑان بھول چکے ہوتے ہیں۔ ان کو چھوڑو گے تو انہیں بلی وغیرہ کھا جائے گی۔ میں مطمئن تو ہو گیا مگر ایک روز میں نے تجربے کے طور پر بند کمرے میں پنجرہ کھولا تو دونوں طوطے اڑ کر باہر نکل آئے۔ میں نے دروازہ کھول دیا اور وہ پلک جھپکتے ہی یہ جا اور وہ جا۔ اڑان تو ان کی جبلت میں ہے اور رہے گی۔ اب عمران خاں صاحب جو کہتے ہیں کہ لاک ڈائون کے ساتھ زیادہ دیر نہیں چلا جا سکتا تو وہ درست کہہ رہے ہیں۔ لوگ گھروں میں رہ رہ کر تھک بھی چکے ہیں اور ’’اَک‘‘بھی چکے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ احتجاج کی نوبت آئے اور پھر بغاوت کی۔ باہر کے ممالک میں تو جلوس نکلنے شروع ہو گئے ہیں۔ اس لئے کہ لوگوں کا بے کاری اور بے روزگاری نے جلوس نکال دیا ہے۔ تاجروں نے تو دھمکی بھی دے دی ہے کہ لاک ڈائون کو 9مئی سے آگے لے گئے تو وہ دکانیں کھول لیں گے۔ بہرحال کوئی حل تو درکار ہے۔ مرشد ہمارا ایسے گزارہ بھی نہیں اب دریا کو روکا ہے تو کنارہ بھی نہیں اب تاہم حکومت کی مشکل کا احساس ہمیں ہے کہ وہ کیا کرے۔ کرونا کے کیس بڑھ رہے ہیں۔ مگر بھوک سے ان کے بچے مر جائیں گے جو بے چارے وہی کھاتے ہیں جو کماتے ہیں۔ بارہ ہزار میں ان کا کیا بنتا ہے۔ اس بارہ ہزار کا مسئلہ بھی صاف نہیں۔ قصور سے عبدالجبار ادا اور کئی اور دوست لکھتے ہیں کہ یہ پیسے مریخ یا کسی اور سیارے پر بانٹے گئے ہیں؟واقعتاً حکومت کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے کہ لوگ معترض کیوں ہیں۔ اس تقسیم کو بہتر بنایا جائے۔ مخیر حضرات بھی کہاں تک چلیں گے کہ ان کے کاروباری بھی بہت متاثر ہو رہے ہیں۔دو ماہ تو وہ ملازموں کو جیسے تیسے برداشت کر لیں گے‘ پھر چھٹی کروا دیں گے۔ بے روزگاری سیلاب بلا کی طرح درو دیوار گرا دے گی۔ ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ کم وقت کے لئے ترتیب وار کاروبار کھولا جائے۔ کوئی بھی حکمت عملی اختیار کریں بس لوگوں کی دال روٹی تو چل جائے۔ یہ صورت نہ ہو کہ آپ نہیں یا گاہک نہیں۔ آج میں پہلے فروٹ منڈی گیا اور ساتھ یہ سبزی منڈی۔ وہاں تو مناظر ہی اور تھے کچھ نہ پوچھیے۔ بچپن میں پڑھا ہوا ایک درسی شعر یاد آ گیا: احسان ناخدا کا اٹھائے مری بلا کشتی خدا یہ چھوڑ دوں لنگر کو توڑ دوں مزدوروں کی لمبی لمبی لائنیں جنہوں نے سروں پر لُنگر اٹھائے ہوئے تھے۔ لنگر کیلے کے گچھے کو کہتے ہیں۔ یہ قطاریں آگے بڑھتی جا رہی تھیں۔ بولی لگانے والے زور شور سے بولی لگا رہے تھے اور اردگرد ہجوم جو بولی اٹھا رہے تھے۔ اسی طرح خربوزہ ‘ تربوز اور دوسرے پھل گاہوں کو کشش کرنے کے لئے ان کی دلچسپ باتیں اور آوازے۔ چھابوں والے مزدور ساتھ ساتھ سودا اٹھا رہے تھے اور پھر سبزی منڈی میں تو کوئی حال نہیں تھا۔ پھل منڈی کی نسبت کئی گنا رش۔ اندر دکانیں اور باہر دھڑی کے حساب سے بکتی سبزی ۔ سبزی نسبتاً سستی ہے۔ تاہم نئی سبزی پھلیاں اور اروی وغیرہ وہاں بھی دو صد روپے کلو ہے۔ ٹماٹر تو سو روپے کے پانچ کلو۔ بینگن بھی سو کے پانچ کلو لیموں چار صد روپے سے لے کر 600روپے تک پھل اور سبزی وافر ہے کیونکہ یہ باہر نہیں جا رہی۔ پودینہ وغیرہ تو دس روپے کی پانچ گھٹیاں مل جاتی ہیں سب کچھ اچھا لگ رہا تھا کہ وہاں وبا کا کوئی تاثر تک موجود نہیں تھا۔ یکایک دل میں خیال آیا کہ مرتے وہی ہیں جن کو مرنے کا خوف ہوتا ہے۔ ان بے چاروں کو تو بھوک کا خوف ٹکنے نہیں دیتا۔ اللہ سب کا کارساز ہے۔ واقعتاً یہ دنیا اک معمہ ہے۔ گورکھ دھندا ہے۔ وہی کہ ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا۔ باقی رہی بات حکومت کی تو بظاہر وہ سب کچھ کر رہی ہے جو اسے کرنا چاہیے کہ مزید محکموں کو کام کی اجازت مرحلہ وار دینے جا رہی ہے۔ پنجاب میں 6اضلاع میں سمارٹ سمپلنگ ہوئے جا رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر 6ہزار ٹیسٹ ہونگے۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ ٹیسٹ بھی کوئی حتمی نتائج نہیں دے رہے اور تو اور اس ضمن میں مریضوں نے بھی جلوس نکالا کہ وہ ٹیسٹوں سے مطمئن نہیں۔ چلیے آخر میں کچھ اقوال پروفیسر فرخ محمود کے کہ اس نے ہمیں اپنی کتاب افکار فرخ بھجوائی ہے: 1۔ نفس کی غلامی غلام کی غلامی ہے۔ 2۔ تن کی دنیا نفسا نفسی اور من کی دنیا کسر نفسی۔ 3۔ ایمان کے ساتھ سیر بھی حج ہے جبکہ ایمان کے بغیر حج بھی سیر ہے۔ 4۔ دریا زمینوں کو جبکہ دریا دل سینوں کو سیراب کرتے ہیں۔ 5۔ دوسروں کے لئے جلنے والے روشن جبکہ دوسروں سے جلنے والے راکھ ہو جاتے ہیں۔ 6۔ ساری دنیا اس مرغی پر چل رہی ہے جو اپنی ٹانگوں پر نہیں چل سکتی۔ 7۔ بے وقوف کو سمجھانا پٹرول سے آگ بجھانا ہے۔ 8۔ جہاں امیر کی بھوک مر جائے وہاں غریب بھوک سے مر جاتا ہے۔ 9۔ بڑے آدمی کا کام بولتا ہے جبکہ چھوٹے آدمی کا کام بولنا ہے۔