بہاول پور خوابوں اور نوابوں کا شہر ہے، ایسے نوابوں کا جنھوں نے انگریزوں کی ذرا سی کج ادائی پر ان کی بھاری اخراجات اور نخرہ جات سے تیار ہونے والی رولز رائس کو بہاول پور کی سڑکوں پر رول دیا تھا۔ اس ریاست کی بنیاد نواب صادق محمد خاں عباسی اول نے 1727ء میں رکھی۔ 1774ء میں ان کے بیٹے نواب بہاول خان عباسی نے دریائے ستلج کے کنارے ایک نئے شہر کی بنیاد رکھی، جسے بہاول پور کا نام دیا۔ نواب صادق محمد خاں پنجم کے دور میں اس ریاست کے ہر شعبے نے بہت ترقی کی۔ بالخصوص علم ادب کے فروغ کے لیے 1925ء میں جامعہ الازہر، مصر کی طرز پر یہاں جامعہ عباسیہ کا قیام عمل میں آیا۔ 1963ء میں اس کا نام اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور رکھ دیا گیا۔ 1975ء میں پنجاب اسمبلی نے اسے خود مختار ادارے کا درجہ دے دیا، جس کے بعد اس کی ترقی کا عمل تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ حال ہی میں اس شہر کی جانب ہماری مراجعت مذکورہ بالا تاریخی جامعہ اسلامیہ میں شاعرِ مشرق کے144 ویں یومِ پیدائش کے حوالے سے منعقد ہونے والی عالمی اقبال کانفرنس بہ عنوان ’’عصرِ حاضر میں فکرِ اقبال کی ضرورت و افادیت‘‘ میںشرکت کی وجہ سے ہوئی۔ اس کانفرنس کے محرک و موید جامعۂ مذکور کے نومولود شعبۂ اقبالیات کے ہونہار چیئرمین ڈاکٹر رفیق الاسلام تھے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ نومبر کا مہینہ آتا ہے تو پوری قوم کو اقبال ہو جاتا ہے، اس بار تو جگہ جگہ ہوا اور وہ بھی پوری شدت کے ساتھ۔ دعا ہے کہ جس وارفتگی کے ساتھ ہمیں اپریل اور نومبر میں اقبال ہو جاتا ہے، کاش اسی شدومد سے کبھی ہم بھی اقبال کے ہو جائیں۔ سترہ نومبر کی صبح ہم پروفیسر طاہر بخاری کی گاڑی میں اس جامعہ کے کشادہ بغداد کیمپس پہنچے تو پورے علاقے کو شاعرِ مشرق کی تصاویر اور بینرز سے اس طرح مزین پایا کہ جی چاہا اس شہر کا نام بہاول پور کی بجائے ’اقبال پور‘ رکھ دیں۔ اقبال کا اپنی زندگی میں بھی ریاست بہاول پور اور یہاں کے نوابین سے سے خصوصی تعلق رہا۔ سیکڑوں ایکڑ پر پھیلی جامعہ اسلامیہ بہاول پورکا شمار ایشیا کی بڑی جامعات میں ہوتا ہے۔ سات کیمپس، درجن بھر فیکلٹیز اور سو سے زائد ڈیپارٹمنٹس پر محیط یہ یونیورسٹی اس وقت نصف لاکھ کے قریب طلبہ و طالبات کی علمی کفالت کی ذمہ داری اپنے مضبوط کاندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔سب سے زیادہ خوشی اس جامعہ کے میرِ کارواں جناب انجنئیر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب (تمغۂ امتیاز) کا خطاب سُن کے ہوئی، جنھوں نے اقبال کے حوالے سے مختلف اداروں کے سربراہوں کی طرح روایتی قسم کی خطبہ بینی کی بجائے کھلی آنکھوں اور روشن دماغ کے ساتھ با مطالعہ گفتگو کی۔ افتتاحی سیشن میں ان کی دل گداز تقریر سے محسوس ہوا کہ وہ عشقِ رسولؐ سے بندھی اور فکرِ اقبال میں گُندھی ہوئی شخصیت ہیں۔ نوجوان نسل کو انھوں نے اقبال کی نظموں ’’خطاب بہ جوانانِ اسلام‘‘ اور ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت‘‘ کے افکار سے نصیحت پکڑنے کی تلقین کی، جس کا لُبِ لباب ہے: کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تُو نے وہ کیا گردوں تھا، تُو جس کا ہے اِک ٹُوٹا ہوا تارا مؤخرالذکر نظم کی انھوں نے جدید عالمی تناظر میں نہایت خوبصورتی سے تشریح و تعبیر کی۔ بالخصوص ان دو اشعار کو کفر و اسلام کی موجودہ آویزش کے حوالے سے بھی مہارت سے نمایاں کیا: دنیا کو ہے پھر معرکۂ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا اِبلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا اسی طرح ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویجز پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو نے نہایت عمدہ استقبالیہ پیش کیا۔ ڈاکٹر رفیق الاسلام اور ان کی پوری ٹیم کی ہمت کی بھی داد دینا پڑتی ہے کہ انھوں نے پاکستان بھر کے چاروں صوبوں کی جامعات، کلیات اور ادبی و اقبالی اداروں کے ماہرینِ اقبالیات کے علاوہ دیگر چھے ملکوں کی متعدد جامعات کے سکالرز کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لیا، جو ظاہر ہے بڑے حوصلے اور طویل ریاضت والا معاملہ ہے۔ جسٹس ناصرہ جاوید نے وڈیو لنک کے ذریعے تقریب سے خطاب کیا۔ جامعہ کراچی سے ڈاکٹر تنظیم الفردوس، جنھیں دیکھ کے حیرت ہو تی ہے کہ نصف صدی قبل بھی اتنے ماڈرن نام ہوا کرتے تھے۔ اسلام آباد سے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، جنھوں نے آج تک اپنے ناشاد ہونے کی وجہ نہیں بتائی۔ لاہور سے ڈاکٹر بصیرہ عنبرین اور ڈاکٹر وحیدالرحمان، دونوں میاں بیوی اپنے اپنے ادارے میں ڈائریکٹر ہیں، سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک ہی گھر میں دو ڈائریکٹر کیسے سما پاتے ہیں۔ علاوہ ازیں لاہور ہی سے ڈاکٹر بابر نسیم آسی، ڈاکٹر شاہد اشرف، حافظ ذیشان اور حافظہ فروا۔ اسی طرح فیصل آباد سے ڈاکٹر طارق ہاشمی، غازی یونیورسٹی ڈیرہ غازی خاں سے ڈاکٹر سہیل عباس خاں، بہاول پور سے ڈاکٹر شفیق احمد، ڈاکٹرقاسم جلال، ڈاکٹر روبینہ رفیق، ڈاکٹر عصمت درانی، ڈاکٹر عامر سہیل،ڈاکٹر اصغر سیال، ڈاکٹر محمد رمضان طاہر وغیرہ شامل تھے۔ فکرِ اقبال کا شاید ہی کوئی پہلو ہو جو اس کانفرنس میں زیرِ بحث نہ آیا ہو ۔ تقریب مں اپنی ایم فل کی طالبہ عدیلہ اور مجھ پر ایم فل کا مقالہ لکھنے والی ثانیہ بٹ کو اپنے بیٹے فرقان کے ہمراہ دیکھ کر مسرت ہوئی۔ بہاول پور کے متعدد محلات میں ساکت پڑی تاریخ کے دیدار کی مچلتی خواہش کو ہم نے دیدہ زیب ’نور محل‘ کے نظارے سے تسکین پہنچائی۔ جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا اس کانفرنس کا عنوان تھا: ’’عصرِ حاضر میں فکرِ اقبال کی ضرورت و افادیت‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے دانائے راز سے بے حد محبت رکھتے ہیں۔ ان کے افکار پہ چہک چہک کے گفتگو کرتے ہیں، ان کے کلام کو لہک لہک کے گاتے ہیں۔ ہماری دیرینہ خواہش ہے کہ وطنِ عزیز کے کسی پلیٹ فارم پہ اب کوئی ایسی کانفرنس ہو جس کا موضوع ہو: ’’عصرِ حاضر میں اثرِ اقبال‘‘