وزیر اعظم عمران خان کے سارے اتحادی اپنے اپنے مطالبات کا پنڈورا باکس کھول چکے ہیں اور یہ سب کچھ عوام کے نام پر کیا جا رہا ہے۔ترقیاتی فنڈز کی عدم فراہمی اور انفرا سٹرکچر کی کمی کا رونا رویا جا رہا ہے۔مہنگائی، بیروزگاری اور پنجاب میں خاص طور پرخراب گورننس پر تان ٹوٹتی ہے اور اس سب کا ذمہ دار پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بز دار کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔عوامی نمائندوں کا حق ہے کہ وہ جن کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں انکے حقوق اور سہولتوں کی فراہمی کے لئے آواز اٹھائیں۔لیکن جتنی آواز اٹھانے والے جماعتیں ہیں وہ کسی نہ کسی صورت حکمرانی کا لطف اٹھا چکی ہیں۔انہوں نے عوام کی بہتری کے لئے بھی اقدامات کئے ہونگے لیکن اتنے نہیں کئے کہ کہ عام آدمی مطمئن ہو جائے، اسی لئے تو اب پھر عوامی کاموں کے لئے شور شرابا شروع ہے۔ مجھے یاد ہے میاں نواز شریف کی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں انکے اپنے عزیز چوہدری شیر علی جو بغیر لگی لپٹی بات کرنے کے عادی ہیں، نے قومی اسمبلی میں تقریر کی تھی جس میں انہوں نے عوامی فلاح کے منصوبوں کے لئے فنڈز کی عدم دستیابی پر خاصی کڑی تنقید کی اور انکا جملہ جو مشہور ہوا کہ،’’ہم عوام کے لئے کام کرنے آتے ہیں یہاں آلو لینے نہیں آئے‘‘۔ عمران خان کے اتحادی بھی یقیناً اسمبلیوں میں آلو لینے نہیں آئے اور نہ ہی خود پاکستان تحریک انصاف کی کامیابی اس لئے ہے ۔بجلی، گیس، اشیائے ضرورت کی قیمتیں ایسی چیزیں ہیں جنکا شکار براہ راست سفید پوش اور غریب طبقہ ہوتا ہے۔ حکومت اگر ان چیزوں کی قیمتیں کنٹرول کرنے میں ناکام ہے تو اسے خراب گورننس ہی گردانا جائے گا۔ صوبائی حکومتوں کے پاس بہت مئوثر انتظامی ڈھانچہ موجود ہے۔ اگر وہ ان سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے اوراجناس کی کمی واقع ہونے کے حوالے سے تسلی بخش کام نہیںلے پا رہے تو اسے بری گورننس ہی کہا جائے گا۔ آٹے کی قلت ہو چینی کی قیمت کا مسئلہ ہو اس میں وفاق سمیت تمام صوبے ذمہ دار ہیں۔اس حوالے سے حکومت کے اتحادی ہوں یا اپوزیشن انکی تنقید بیجا نہیں ہے اور ان معاملات میں عمران خان کی حکومت کو ذمہ داری لینی چاہئے اورعوام کے مالی بوجھ کو کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جانی چاہئے۔ جہاں تک ترقیاتی فنڈز اور انفراسٹرکچر بنانے کا تعلق ہے تو اس پر حکومتی اتحادیوں کا واویلابیجا ہے۔ مسئلہ یہ نہیںہے کہ عوام کو سڑک، بجلی، گیس، سکول اور ہسپتال نہیں ملنے چاہئیں، مسئلہ یہ ہے کہ عرصہ دراز سے ان تمام سہولتوں کی فراہمی کے لئے بے تحاشا فنڈز خرچ کئے گئے۔ جس میں وفاقی حکومت کے منصوبوں کے علاوہ، صوبائی حکومتوں، بلدیاتی اداروں اور بین الاقوامی اداروں نے کھربوں روپے خرچ کئے لیکن ملک عزیز میں ان فنڈز کی کھپت کے حوالے سے آثار ڈھونڈے سے ملتے ہیں۔ جب پیپلز پارٹی کے دور میں بلدیاتی اداروں کے آڈٹ کے حوالے سے کوشش کی گئی تو پورے ملک میں بلدیاتی اداروں کے سابق مئیرز، کونسلرز اور چئیر مینوں نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا۔دانیال عزیز جو اس تحریک کو لیڈ کر رہے تھے، نے اپنے حواریوں کی مدد سے پورے ملک میں مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا۔ آخر کار حکومت کو آڈٹ کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔یہ نہیں کہ ان فنڈز سے کچھ کام نہیں ہوا لیکن جتنے فنڈزتھے انکے نصف کے برابر بھی خرچ نہیں ہوئے ،زیادہ تر لوگوں کی جیبوں میں چلا گیا۔ اگر یقین نہ آئے تو پاکستان بھر کے بلدیاتی اداروں کے سربراہوںکی جائیدادوں کا ڈیٹا کسی عہدے پر متمکن ہونے سے پہلے اور بعد کی بنیاد پر لے کر تجزیہ کر لیا جائے تو ساری صورتحال عیاں ہو جائے گی۔ یہ بات میں ہوا میں نہیں کر رہا، 1987ء میں اس بلدیاتی نظام کا ایک منتخب کونسلر کے طور پر کچھ عرصہ حصہ رہا لیکن جلد ہی اس سے توبہ کر لی۔اس میں سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ بلدیاتی ادارے اپنے زیر نگیں علاقے میں کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ بنا سکتے ہیں، اسی طرح سے ضلع کونسل بھی اپنے پورے ضلع میں کوئی بھی منصوبہ بنا سکتی ہے۔ایک اور طریقہ جو اس وقت متعارف تھا کہ مقامی آبادی اگر کسی منصوبہ کے لئے بیس فیصد رقم فراہم کر دیتی ہے تو باقی رقم متعلقہ ضلع کونسل فراہم کردے گی۔ قصہ مختصر ایک منصوبہ اس انتظام کے تحت تین دفعہ بنتا تھا۔یونین کونسل اپنے فنڈ سے اگر ایک سڑک تعمیر کرتی تھی تو کچھ عرصہ بعد یہی سڑک ضلع کونسل کے فنڈ سے تعمیر ہوتی تھی اور آخری بار مقامی آبادی کا بیس فیصد فنڈ جو کہ کوئی بھی ٹھیکیدار ملی بھگت سے عوام کے نام پر جمع کرا کر اس سڑک کو تیسری بار بناتا تھا۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ایک ہی منصوبے پر تین گنا فنڈ خرچ ہو جاتا تھا۔ہمارے بین الاقوامی ڈونرز خصوصاً امریکہ نے کچھ عرصہ سے ا سی صورتحال کے پیش نظربراہ راست حکومتوں کو فنڈ دینے سے توبہ کر لی ہے اور وہ صرف منصوبوں کی شناخت تک حکومت کی مدد حاصل کرتے ہیں اسکی منصوبہ بندی سے لیکر تکمیل تک وہ اپنے ٹھکیدار اورماہرین استعمال کرتے ہیں۔ عمران خان کو بھی اپنے اتحادیوں کو ترقیاتی فنڈز کے حوالے سے صاف صاف بات کرنی چاہئے اور انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ کسی مناسب طریقے ہونی چاہئے۔ اس میں ترجیحات کا تعین سب سے اہم ہے۔ جہاں تک عوام کے مسائل کا تعلق ہے تو اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔ تحریک انصاف اپنے بڑے بڑے دعووئوں جن میں احتساب بھی شامل ہے کو پورا کرنے میںناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اگر وہ عوام کو اشیائے ضروریہ کی فراہمی اور قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوتی تو پھر اتحادیوں کو بجا طور پر حکومت کوبتانا چاہئے کہ وہ اسمبلیوں میں آلو لینے نہیں آئے۔اسکے لئے وہ جتنا دبائو بڑھائیں گے ،عوام کے ووٹ کے ساتھ انصاف کر رہے ہونگے اور حقیقی معنوں میں ووٹ کو عزت دینے کا یہی طریقہ ہے۔