جس وقت پاکستان پیرس میں ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں شامل ہونے کے خطرے سے دوچار تھا ، پاکستانی میڈیا اور قوم اس سے بھی اہم ایک مسئلے میں الجھی ہوئی تھی اور وہ تھا عمران خان کی پاک پتن شریف کی چوکھٹ پہ سجدہ یا بوسہ تعظیمی۔ ایسے اعلی پائے کے فقہی مباحث باہم جاری تھے کہ علمائے بغداد کی یاد تازہ ہوگئی ۔ ابھی یہ قوم اپنے اپنے کالے کوے کو سفید و حلال کرنے میں تن من دھن سے جتی ہوئی تھی کہ سالم قوم گرے لسٹ میں شامل ہوگئی۔ نہ سفید نہ سیاہ۔ ففٹی شیڈز آف گرے۔یہ آج کے ہلاکو خان ہیں۔انہیں سیاہ کوسفید کرنا اور دونوں کو ملا کر گرے کرنا خوب آتا ہے۔ہمیں البتہ کوے حلال کرنے سے نہ تب فرصت تھی نہ اب ہے۔ اہم سوالات کچھ اور ہیں اور قابل غور ہیں۔ ایف اے ٹی ایف میں فروری سے لٹکتی تلوار آخر تین ماہ میں کس طرح اتاری جاسکتی تھی ؟ پاکستان نے ایک نیشنل ایکشن پلان کے ہوتے ہوئے اضافی چھبیس نکاتی پلان پیش کرنے کی کیوں ضرورت محسوس کی اور اس پہ بھی عمل کرنے میں کیوں ناکام رہا؟کیا ہم نے یہ طے کرلیا ہے کہ دنیا مل کر ہم پہ جو بھی الزام لگائے گی ہم اسے تسلیم کرلیں گے؟کیا وزارت خارجہ میں ایک بھی رجل رشید نہیں جو عالمی فورم پہ پاکستان کا مقدمہ لڑ سکے؟کیا ہم نے مان لیا کہ ہم مجبوروں پہ ناحق جو مختاری کی تہمت ہے ہم نے اس سے ناجائز فائدہ اٹھایا ہے؟کیا ہم نے تسلیم کرلیا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میںڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کررہے ہیں؟ اگر ایسا نہیں ہے تو دنیا ہمارے اقدامات سے مطمئن کیوں نہیں ہورہی؟ دوست ہمارا ساتھ کیوں چھوڑ رہے ہیں۔ اگر یہ الزام ہی ہے تو ہم سفارتی سطح پہ یہ داغ دھونے میں ناکام کیوں ہوئے؟منی لانڈرنگ کے ڈھانچے ہماری الماریوں سے کیا واقعی ہر بار برامد ہوتے ہیں یا ہم یہ ثابت ہی نہیں کرپاتے کہ یہ الماریاں ہماری نہیں ہیں؟خالص منی لانڈرنگ دنیا کا مسئلہ ہے یا اس سے جڑی دہشت گرد تنظیموں کو فنڈنگ اصل مسئلہ ہے۔ پانامہ پیپرز میں شریف فیملی کا نام ابھی طشت از بام ہوا اس سے قبل سرے محل اور سرور پیلس کی کہانیا ں موجود تھیں اور خود پانامہ کون سا مریخ پہ تھا ۔ سوئس بینکوں کے خفیہ اکاونٹ کون آپریٹ کرتا ہے زمین پہ سود خوروں کی جنت سوئٹزر لینڈ میں کس کے سرمائے کی نہریں بہہ رہی ہیں اور اس حمام میں کس کس نے کس آف شور کمپنی کے زیر جامے باندھ رکھے ہیں یہ سب کو معلوم ہوتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے منی لانڈرنگ دہشت گردی کو فنڈنگ کے حوالے سے بنتی ہے اور یہیں پاکستان کا کیس دوست بھی لڑنے سے انکار کردیتے ہیں۔تو کیا تمام الزامات ہم نے درست مان لیے ہیں؟ چودہ سال تین ماہ اور چند دن ہونے کو آئے جب پاکستان نے سولہ مارچ2004 ء کو دہشت گردی کے خلاف اپنی زمین پہ آپریشن شروع کئے ۔اس سے تین سال قبل بھی وہ دہشت گردی کے خلاف امریکی اور نیٹو جنگ کا ہراول دستہ تھا۔ ہم نے فیصلہ کرلیا تھا کہ ہم کس کے ساتھ ہیں۔ ہمیں تورہ بورہ نہیں بننا تھا۔ ہم نے آپریشن شروع کئے۔یہ آپریشن امریکی امداد اور گائیڈ لائن پہ کئے گئے اور ان کا مرکز بالخصوص فاٹا اور خیبر پختون خواہ تھا یعنی پاکستان کا شمال مغربی علاقہ۔وہ وقت ایسا تھا جب افغانستان پہ امریکی حملے کے خلاف دنیا بھر سے جمع ہونے والے جہادیوں نے افغانستان اور پاکستان کا رخ کرلیا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ جن گروپوں کے خلاف شروع ہوئی آج کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہیں۔لشکر اسلام ، اسلامی تحریک ازبکستان اور ترکستان اسلامی پارٹی کے نام کس کو یاد ہیں؟جماعت الاحرار ، تحریک اسلامی ازبکستان ، تحریک خلافت اور جنداللہ بعد میں داعش میں شامل ہوگئیں جبکہ بعد میں جماعت الاحرار دوبارہ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی میں شامل ہوگئی ۔ ان تنظیموں کو مبینہ طور پہ بھارت کی آشیرباد حاصل رہی اور اسی بنیاد پہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کو جس میں امریکہ دامے درمے اور سخنے ایک سرپرست کے طور پہ شامل رہا، اسے پاکستان کی سلامتی کی جنگ بننا پڑا۔ افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی۔ خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے۔ امریکی ڈرون حملے ہوتے رہے حتی کہ ایبٹ آباد میں وہ دندناتے ہوئے آئے اور اپنے سب سے بڑے دشمن کو ٹھکانے لگا کر چلتے بنے۔اگر آپ دنیا بھر کی جنگوں کی تفصیل انٹرنیٹ پہ دیکھنا چاہیں تو اس کا انداز کچھ یوں ہوتا ہے کہ ایک فہرست میں دائیں اور بائیں حریف افواج کے ترجیحی بنیاد پہ نام لکھے جاتے ہیں ۔ اس کے نیچے ان ممالک کے نام جو ان کے حلیف رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی اس جنگ میں ایک طرف پاکستان اور اس کی خفیہ ایجنسیوں کے نام لکھے ہیں۔ اس کے عین نیچے حلیفوں کی فہرست میں امریکہ، امریکی سی آئی اے، امریکی جوائنٹ اسپیشل آپریشن کمانڈ ،امریکی فضائیہ اور برطانوی فضائیہ موجود ہیں۔ دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان، لشکر جھنگوی، القاعدہ، جنداللہ، تحریک اسلامی ازبکستان، لشکر اسلام، احرار الاسلام، تحریک نفاذ شریعت محمدی، ترکستان اسلامی پارٹی موجود تھیں۔ ان میں سے کچھ مثلا احرار الاسلام، ترکستان اسلامی پارٹی اور جنداللہ نے داعش میں شمولیت اختیار کرلی۔ انہیں بھارتی حکومت اور خفیہ ایجنسی را کی حمایت حاصل تھی۔ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں جو پاکستان کے اندر چودہ سالوں سے باقاعدہ طور پہ جاری ہے،کئی چھوٹے بڑے آپریشن ہوتے رہے۔ ان میں آپریشن میزان، آپریشن کلوشا اور لال مسجد جو وقت اور مخصوص نوعیت کے تھے۔ آپریشن ایبٹ آباد کو بھی شامل کرلیں تو کیا حرج ہے۔ جبکہ آپریشن رد الفساد، آپریشن ضرب عضب۔ آپریشن راہ حق ، راہ راست، راہ نجات، صراط مستقیم اور کئی دوسرے باقاعدہ قسم کے بڑے آپریشن اس کے علاوہ ہیں۔ جو پہلے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکی سرپرستی میں جاری رہے پھر اس میں بھارت شامل ہوگیا تو یہ پاکستان کی جنگ بن گئی۔اس کے بعد ہمارا تورہ بورہ بھی بنا اور آپریشن بھی ہوتے رہے۔اس دوران کیا کچھ نہیں ہوا۔ اسی قوم نے جو آج دہشت گردی کی نیم سیاہ نیم سفید فہرست میں دھڑلے سے شامل کردی گئی ہے کیا کیا نہ دیکھا؟کتنی لاشیں اٹھائیں اور کتنی تباہی دیکھی۔ معیشت کا نقصان تو کیری لوگر بل اور امریکی امداد بھی پورا نہ کرسکی، جس خوف کی فضا میں ہمارے بچے جوان ہوئے اس نفسیاتی نقصان کا ازالہ کون سی ایف اے ٹی ایف کرسکتی ہے؟اسی دوران ہم نے آرمی پبلک اسکول کا دلخراش سانحہ بھی جھیلا جس کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنا اور ماضی کے آپریشن ناکافی ثابت ہوئے۔آج جو کچھ عرصے سے ہم امن و سکون کی فضا میں سانس لے رہے ہیں تو کچھ تو ہوا ہے جس کا ادراک دنیا کر نہیں رہی یا ہم کروانے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اگر یہ آپریشن بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف تھے تو بھارت دہشت گرد کیوں نہیں ہے۔ اگر ممبئی حملوں میں حافظ سعید کا نام دھڑلے سے لیا جاتا ہے تو ہمیں کلبھوشن یادیو کا نام لیتے کس کی حیا آتی ہے؟ اس کے تمام ثبوت ہوتے ہم گرے فہرست میں کیسے شامل ہوگئے ؟اس کا جواب ذمہ داروں کو دنیا کو ہی نہیں قوم کو بھی دینا ہوگا کیونکہ معاشی پابندیاں یہ قوم ہی بھگتے گی ۔ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے بھارت میں اپنے حالیہ دورے میں بہت سے اشارے دئیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو مجبور کرے گا کہ وہ بھارت کو افغانستان تک رسائی کا راستہ فراہم کرے جس کی عدم موجودگی میں اسے چاہ بہار سے استفادہ کرنا پڑ رہا ہے۔ظاہر ہے یہ بھی امریکہ کو بہت عرصے تک قبول نہیں ہوگا اور وہ یہی چاہے گا کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان منسوخ شدہ تجارتی معاہدے میں بھارت بھی شامل ہوجائے تاکہ ایران پہ اس کا انحصار کم ہوسکے۔ہم تو افغانستان سے ایپ ٹا کا مقدمہ ڈھنگ سے نہ لڑ سکے۔ حالیہ گرے لسٹ میں شمولیت کی ایک وجہ پاکستان کو اس پہ مجبور کرنا بھی ہوسکتی ہے۔اس کے ساتھ ہی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد کی صورتحال ذہن میں رکھیں تو بہت کچھ واضح ہوجائے گا۔اشرف غنی نے افغان طالبان کے خلاف پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی شمولیت کے بغیر امن ممکن نہیں ہے ،نہ صرف یہ بلکہ اس سلسلے میں دونوں ممالک کے درمیان تحریری معاہدہ تیار ہونے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے۔امریکی دباو پہ یہ جوائنٹ ایکشن اگر سفارتی بنیادوں پہ ہوا تو طالبان نے ایک عرصے سے پاکستان کی سننی چھوڑ دی ہے،یہ امریکہ اگر جانتا ہے تو پاکستان پہ دباو بے معنی ہے۔ یہیں سے اس شبہ کو تقویت ملتی ہے کہ یہ جوائنٹ ایکشن عسکری بنیادوں پہ ہوگا اور پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف ایک نئی جنگ میں دھکیلا جائے گا۔ہم تب بھی دنیا کی منتیں ہی کرتے رہیں گے یا کوئی سنجیدہ اقدام بھی اٹھائیں گے ؟