سعودی عرب میں افغان طالبان کے حوالے سے علما کانفرنس جاری ہے جس میں افغانستان سمیت دنیا بھر سے علما شریک ہورہے ہیں۔ یہ کانفرنس اپنی جائے انعقاد کے حوالے سے خاص اہمیت کی حامل ہے جہاں سے جاری اعلامیے کو متفقہ طور پہ تسلیم کیا جائے گا ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کانفرنس کو طالبان نے انعقاد سے پہلے ہی رد کردیا ہے۔ خیال رہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوند خود بھی مفتی ہیں اور ملا عمر کے دور خلافت میں طالبان کے چیف جسٹس سمجھے جاتے تھے ۔اس کانفرنس سے متعلق ان کا اعلامیہ بالکل واضح ہے جس کے مطابق یہ علما کانفرنس امریکی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔اس کا مقصد طالبان کو دینی اور مذہبی محاذ پہ بیک فٹ پہ لے جانا ہے۔اعلامیے میں افغانستان میںامریکی کمانڈر جنرل نکسن کے مارچ 2018ء کے اس بیان کا حوالہ بھی دیا گیا ہے جس کے مطابق امریکہ طالبان پہ مذہبی دبائو بھی ڈالے گا۔اعلامیے میں مئی میں جکارتہ میں ہونے والی سہ ملکی علما کانفرنس جس میں پاکستان، انڈونیشیا اور افغانستان کے علما شامل تھے میں، علما پہ امریکی ڈالروں سے بھرے لفافے وصول کرنے کا الزام بھی لگایا گیا جس کی تاحال کسی نے تردید نہیں کی۔اس کانفرنس میں بھی افغان طالبان کو ہتھیار ڈالنے اور ہر طرح کی دہشت گردی سے تائب ہونے کی تلقین کی گئی تھی اور افغان حکومت کی قیام امن کی کوششوں کو سراہا گیا تھا۔ اس کے فورا بعد خود افغانستان میں اشرف غنی نے علما کانفرنس بلا کر طالبان کے خلاف فتوے جاری کروائے تھے۔ اس سے پہلے وہ پاکستان پہ زور ڈالتے رہے کہ وہ اپنا دہشت گردی کے خلاف اس فتوے کا دائرہ تھوڑاوسیع کردیں جس پہ اٹھارہ سو پاکستانی علما کے دستخط ہیں،بس اتنا کہ اس میں افغان طالبان بھی سما سکیں ۔ اشرف غنی کا پاکستانی علما سے سوال تھاکہ کیا اسلامی اصول و شریعت تمام دنیا کے لئے نہیں ہے یوں کیا پاکستان کا فتوی افغانستان پہ لاگو نہیں ہوسکتا۔ جس پہ پاکستانی علما نے انہیں جو جواب دیا اس کا بین السطور مفہوم کچھ یوں تھا کہ سرحدیں اپنی اپنی تو فتوی بھی اپنا اپنا ہوگا یہ کوئی جہاد تھوڑی ہے جس کی سرحدیں نہ ہوں۔اس پہ اشرف غنی لاجواب ہوگئے اور انہیں اپنا فتوی خود نکلوانا پڑا جو چنداں مشکل نہ تھا۔ا فغانستان پہ امریکی قبضے کے خلاف جہاد کو ان مفتیان کرام نے کس طرح دہشت گردی میں شامل کیا اور امریکیوں سے برسر پیکار طالبان کو کس طرح فتوے کی مار مارنے کی کوشش کی اس کا جواب وہ خود دیں گے ۔افغان سرزمین پہ غیر ملکی بالخصوص امریکی افواج کی موجودگی اور اس سے بھی پہلے امارت اسلامیہ پہ امریکی جارحیت کا کیا شرعی جواز تھا اور اس کے خلاف ہتھیار اٹھانے میں کیا شرعی قباحت تھی یہ بھی وہی جانتے ہونگے لیکن ان فتووں کو خود افغان عوام نے کتنی اہمیت دی اس کا اندازہ افغانستان میں عید کے دنوں میں تین روزہ جنگ بندی کے دوران ہی ہوگیا۔ اس دوران افغان شہری طالبان کے ساتھ سیلفیاں بنواتے رہے۔ طالبان کابل سمیت افغانستان بھر میں موٹر سائیکلوں پہ دندناتے پھرے ۔ مقامی افراد ہی نہیں این جی او کے نمائندے جن میں خواتین بھی شامل تھیں، طالبان کو روایتی پگڑیاں پہناتی اور گلے میں ہار ڈالتی نظر آئیں۔ ہر دو کی طرف سے محبت کے اس کھلم کھلا مظاہرے نے عالمی میڈیا میں خطرے کے الارم بجا دیے۔یہ تو وہ طالبان تھے جن کے عوام بالخصوص خواتین پہ ظلم و ستم کے بین الاقوامی میڈیا روح لرزا دینے والے قصے سناتا رہا۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی ایسی اشک آور داستانیں سنائی گئیں کہ مغربی این جی او کی شمع بردار خواتین کی ہچکیاں بندھ بندھ جاتی تھیں۔معلوم ہوتا تھا دنیا کے اس خطے پہ کسی وحشت ناک عفریت کا قبضہ ہوگیا ہے جس سے جلد از جلد چھٹکارا دنیا کی بقا کے لئے ضروری ہے۔ سب سے اہم کام ان دنوں یہی تھا۔ میڈیا پہ طالبان کی ہیبت ناکی کے روح فرسا قصے اور پینٹاگون میں افغانستان پہ حملے کی منصوبہ بندی۔ یہ اہم کام انجام دیا گیا اور ملا عمر کی امارت اسلامیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ ہم نے اس بجانے کے کام میں امریکہ بہادر کا پورا ساتھ دیا اور اپنا تورا بورا بنوا لیا۔ اس کی بھی خیر تھی لیکن اپنا گھر لٹانے کے بعد بھی آج تک کسی نے ہمارے گلے میں ہار ڈالے، پگڑیاں پہنائیں نہ سلفیاں بنوائیں۔ الٹا گرے لسٹ میں نام ڈال دیاگیا، ڈو مور کے تقاضے ہوتے رہے۔ امداد میں کٹوتی ہوئی لیکن دنیا کا پھولا ہوا منہ ہم ٹھیک نہ کرسکے۔ ادھر طالبان نے جو درست سمجھا کیا، ہتھیار اٹھائے، کابل میں دھماکے کئے، اپنی ہی حکومت کے خلاف مورچہ بند ہوئے امریکی قبضے کے خلاف علم جہاد گرنے نہ دیا۔ وہ آج کابل میں دندناتے پھررہے اور عوام سے پھول وصول کرتے پھررہے ہیں۔ ساتھ ساتھ جہاد بھی جاری ہے اور امریکی قبضے کے خاتمے تک جاری رہے گا۔یہ ان کا واضح اعلان ہے۔امریکی وزیر خارجہ مایک پومپیو جو گزشتہ روز افغانستان کا پہلا اور غیر اعلانیہ دورہ کررہے تھے کہہ اٹھے کہ دنیا اب تھک چکی ہے،وہ افغانستان میں امن چاہتی ہے طالبان کو مذاکرات کی میز پہ آنا چاہئے آخر وہ کب تک لڑیں گے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ ایک شکست خوردہ آواز تھی۔ افغانستان کی دلدل میں ہاتھ پائوں مارتے، اپنے وسائل جھونکتے اپنے لوگوں سے روزگار چھین کر افغانستان میں تعینات اپنے فوجیوں پہ لگاتے اور ہلاک ہونے والوں کے تابوت واشنگٹن بھیجتے کون تھک گیا ہے یہ سب پہ واضح ہوگیا ہے۔اگر کوئی نہیں تھکا تو وہ طالبان ہیں جس کا ثبوت انہوں نے عید کے دنوں میں تین روزہ عارضی جنگ بندی کے دوران دے دیا ہے۔ یہی خطرہ پہلے انڈونیشیا پھر کابل اور اب جدہ میں علما کانفرنس کے انعقاد کی بنیاد بنا۔ عوام میں طالبان کی یہ غیر متوقع پذیرائی بلا وجہ نہیں ہے۔حقیقت حال کچھ یوں ہے کہ افغانستان میں طالبان ایک متوازی حکومت چلا رہے ہیں ۔ ایشلے جیکسن کی بتیس صفحات پہ مشتمل ایک تفصیلی رپورٹ اس خوف کی بنیاد بنی ہے جس کی وجہ سے دنیا بھر سے طالبان کے خلاف فتوے اکھٹے کئے جارہے ہیں۔ یہ رپورٹ اوورسیز ڈیویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ نے کابل میں ڈنمارک کے سفارتخانے سے شائع کی ہے۔ایشلے جیکسن نے 160 سے زائد طالبان مجاہدوں اور شہریوں کے انٹرویو پہ یہ رپورٹ ترتیب دی ہے۔اس رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ طالبان افغان حکومت کے متوازی ایک شیڈو گورنمنٹ چلا رہے ہیں ۔ یہ رپورٹ ایسے ہی بیس اضلاع کے مفصل سروے پہ مشتمل ہے۔طالبان اپنے زیرکمان علاقوں میں صحت ، تعلیم اور انصاف پہ قابل ذکر کام کررہے ہیں اور شہری ان کی کارگزاری سے مطمئن ہیں۔اس سے زیادہ خطرناک بات کیا ہوگی کہ طالبان نے علاقوں اور شہریوں کو بزور قوت فتح کرنے کی بجائے خدمات اور انتظام میں ہاتھ ڈالنا شروع کردیا ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی ہیں۔ صحت ، تعلیم اور انصاف کے نظام کے لئے انہوں نے مقامی افغان حکام ہی نہیں نیم سرکاری تنظیموں اور سماجی خدمات کی تنظیموں کے ساتھ شراکت عمل بھی کررکھا ہے اور انہیں اس متوازی نظام پہ راضی کرلیا ہے۔رپورٹ بتاتی ہے کہ امارت اسلامیہ کے خاتمے کے بعد امریکی افواج کے ساتھ مسلسل مصروف پیکار ہونے کے باوجود کس طرح طالبان کی یہ متوازی حکومت پھیلتی ہی جارہی ہے۔ لوگوں کو انصاف، تعلیم اور صحت میسر آرہی ہے اور وہ مطمئن ہیں۔ طالبان ان علاقوں سے ٹیکس اکھٹا کرتے ہیں،بجلی کے بل وصول کرتے ہیں اور شرعی عدالتیں چلا رہے ہیں جہاں ان کے قاضی ماضی کی طرح انصاف پہ مبنی فیصلے کرنے کے لیے موٹر سائیکلوں پہ گھومتے نظر آتے ہیں۔کابل کی مرکزی حکومت میں بیٹھے بیوروکریٹس کو اندازہ ہی نہیں کہ ان علاقوں میں طالبان جنگجووں کی طرح نہیں بلکہ آنے والی اپنی حکومت کے منتظر عمال کی طرح نظر آتے ہیں۔2011ء میں ہی طالبان لیڈروں نے 28 سماجی تنظیموں کے ساتھ معاہدے کرلئے تھے جن میں پولیو ویکسین پلانے والی تنظیمیں بھی شامل تھیں۔سب سے قابل توجہ بات یہ ہے کہ اپنے زیر کمان ان علاقوں میں طالبان نے تعلیم کا معیار عمدہ کرلیا ہے ان علاقوں میں امن ہے ، قانون ہے اور بہتر شرح خواندگی ہے۔لڑکیوں کے لئے علیحدہ اسکول ہیں ۔ صحت کے مسائل یوں بہتر ہیں کہ یہاں رشوت خور افغان حکام نہیں ہیں ۔ سستا اور فوری انصاف ہر وقت موجود ہے جیسا کہ ملا عمر کے زمانے میں تھا۔البتہ شرعی قوانین کی پابندی بھی پہلے کی طرح ہی موجود ہے یعنی ٹی وی پہ میچ دیکھا جاسکتا ہے،داڑھی رکھنا ضروری ہے عورتیں بھی نیت کرلیں تو اچھا ہے لیکن نامحرم کے بغیر وہ پھر بھی گھر سے نہیں نکل سکتیں۔رپورٹ کیا ہے خطرے کی گھنٹی ہے۔ سب سے خطرناک بات یہی تو ہے کہ ہتھیار اٹھانے والے ہاتھوں نے سیاسی اور سماجی اثرو رسوخ بھی حاصل کرلیا ہے۔ ایک امریکی انگوٹھے کے ہٹنے کی دیر ہے پھر سے امارت اسلامی ہوگی پھر یہی امریکہ اور یہی فتوے۔ کیا دائرہ ہے جس میں افغانستان گھومے جارہا ہے۔ تھکنے والے تھکنے کا نام نہیں لے رہے۔