اگلے دن کوئی خاص ملاقاتیں نہ تھیں۔آرام سے اٹھے۔ناشتہ ہم نے مل کر تیار کیا۔سرمد خاں ادھ پکے ریڈی میڈ پراٹھوں کے کچھ پیکٹ لے آئے تھے۔انہیں بیلنا پڑتا ہے نہ گھی لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔توے پر رکھیں تو ہلکا سا گھی یا تیل چھوڑ دیں، نان سٹک فرائی پین میں پکائیں تو گھی کی ضرورت نہیں۔کچن میں الیکٹرک برنر اور کوکنگ رینج موجود ہے۔برقی کیتلی میں پانی ڈال کر سوئچ آن کر دیا ۔انڈے موجود تھے کوئی چھ سات منٹ میں سب کچھ تیار ہو گیا۔میں چائے شوق سے نہیں پیتا۔پراٹھے کے ساتھ شہد نکالا ‘ کیا پْر لطف ذائقہ تھا۔یہ شہد لاہور سے ایک صاحب سے خریدا گیا تھا جسے برادرم عامر خاکوانی نے تجویز کیا تھا۔ دو چار گھونٹ چائے پی۔میرا ناشتہ مکمل ہو گیا۔ ناشتے سے فارغ ہو کر باہر سے آتی دھوپ کی روشنی اور کمرے میں بھری ایئر کنڈیشنر کی ٹھنڈک سے بیک وقت لطف اٹھاتے ہم صوفوں پر آ بیٹھے۔ہم جرگہ کر رہے تھے۔سرمد خان پیشہ کے اعتبار سے چارٹرڈ اکاونٹنٹ ہیں۔ان کی اپنی ایک چارٹرڈ اکاونٹنٹ فرم لندن میں ہے جس کی کلائنٹیج زیادہ تر یو کے پراپرٹی ٹیکس سے متعلق ہے اور اِس کے ساتھ ساتھ امیگریشن ‘ پاسپورٹ سٹیزن شِپ بائے انویسٹمنٹ سے متعلق رشین گلوبل کمپنی آسٹن کے گلف ریجن اور ساؤتھ ایشیا کے ڈائریکٹر ہیں۔بڑے کاروباری لوگ سفری مشکلات سے بچنے کے لئے کسی دوسرے ملک کا پاسپورٹ یعنی قانونی شہریت خرید لیتے ہیں جیسے سینکِٹس، ترکی اور ڈومنیکا وغیرہ۔ آسٹن کمپنی ایسے لوگوں کی رہنمائی کرتی ہے۔سرمد اپنے باس کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ ان کی شخصیت جانی پہچانی معلوم ہونے لگی ہے۔ہمارے ساتھ گھومتے پھرتے وہ کمپنی کے معاملات آنلائن دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ فون ہر وقت آن ہوتا ہے۔فون کے مسلسل استعمال میں رہنے کے باعث ساتھ میں دو دو پاور بینک رکھتے ہیں۔ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ہمارے جرگے میں سب کچھ تھا۔ یو اے ای کی حیران کن ترقی‘ پاکستان کی پریشان کن پسماندگی۔ یہاں کے حکمرانوں کی اپنے ملک اور لوگوں سے محبت‘ پاکستان میں عام آدمی کے مسائل جنہیں حل کرنے میں حکومتوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ لاہور میں ہمارے ایک کرم فرم آغا نعمت ہیں۔انہوں نے نارووال میں مویشی فارم بنا رکھا ہے۔یو اے ای کو گوشت برآمد کرتے ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ دبئی میں ان کے دونوں بیٹوں کی میٹ شاپ ضرور دیکھوں۔ سرمد خان کی کچھ کمپنی مصروفیت تھی وہ مجھے ہور العنز ڈیرہ چھوڑ گئے۔دوپہر ہو چکی تھی۔باہر دھوپ میں تمازت تھی۔ کچھ دیر آغا عمیر کے ساتھ رہا پھر وہ دوسرے بھائی کی دکان پر لے گیا‘ ہم پیدل ہی روانہ ہوئے۔کوئی کلو میٹر یا ڈیڑھ کلو میٹر کا فاصلہ ہو گا۔گرمی میں چلنا دشوار ہو رہا تھا۔تاہم فائدہ بھی ہوا کہ اس علاقے کو اچھے طریقے سے دیکھنے کا موقع مل گیا۔سارا علاقہ چھوٹے چھوٹے مکانات پر مشتمل ہے۔یہ ولاز عام طور پر ایک یا دو منزلہ ہیں۔کچھ جگہ پر تین یا چار منزلہ فلیٹس ہیں،یہاں کمروں میں بیڈ رکھے ہیں۔اکثر لوگ ایک دوسرے کے اوپر رکھے بیڈ روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ کرایہ پر لے لیتے ہیں۔ ایک بیڈ کسی کو 24گھنٹے کے لئے نہیں ملتا، بس اس کے کام ختم ہونے کے بعد سونے کے اوقات کے دوران میسر ہوتا ہے۔لوگ شفٹوں میں بیڈ پر سوتے ہیں۔ہورالعنز دبئی کے مقامی افراد کی پرانی بستی ہے۔دولت اور وسائل آنے کے بعد یہ لوگ نئے عالیشان گھروں میں منتقل ہو گئے اور اپنے گھر کرائے پر اٹھا دیے۔ ایسے منظر بھی دیکھے کہ لوگ دھوپ میں دیواروں کے سائے میں بیٹھے بیڈ پر جانے کے وقت کا انتظار کر رہے تھے۔چونکہ درخت زیادہ نہیں اس لئے کھلی جگہ سائے کی کمی ہے۔ایک جگہ کونوکارپسکے جھنڈ کے نیچے کچھ پاکستانی مسکین مزدوروں نے دری بچھا کر ساتھ پانی کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں۔وہ اس سائے کو غنیمت جان کر وقت گزار رہے تھے۔دوسری دکان پر پہنچے تو دیکھا شیشے کے بند کاونٹر میں سری‘ پائے‘ اوجڑی ‘ کلیجی وغیرہ ہے۔صاف گوشت بھی دستیاب تھا۔ پہلی دکان پر مصفیٰ گوشت ہی تھا۔دبئی میں گوشت کی دکان بنانے کے لئے ریفریجریٹر اور چھوٹا سا کولڈ سٹور لازمی ہوتا ہے۔قانون کا احترام و دبدبہ ہے ،کسی میں جرات نہیں کہ باسی گوشت رکھ سکے۔معلوم ہوا کہ زیادہ تر پائے اور سری وغیرہ آسٹریلیا سے آتے ہیں۔بہت اچھے طریقہ سے صاف ہوتے ہیں۔گوشت 40درہم جبکہ اوجڑی‘ پھپھرا وغیرہ 20درہم میں ایک کلو مل جاتے ہیں۔ہر دکان دار کو اپنا نرخ مقرر کرنے کا حق ہے تاہم اسے معیار اور صفائی کے ضابطے پر سوفیصد عمل کرنا ہوتا ہے۔بتایا گیا کہ چھوٹی عمر کے جانور ذبح کئے جاتے ہیں جن کا گوشت جلد گل جائے۔اس سے مزدور طبقہگیس خرچ بچاتا ہے۔کینیا اور دیگر افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے گاہک مویشیوں کی جلد پکاتے ہیں۔ کوئی دو گھنٹے کے بعد طاہر علی بندیشہ مجھے لینے آ گئے۔ سہ پہر کو میں اور سرمد خان میٹرو ٹرین سے سٹی سنٹر گئے جو ایک اسٹیشن کی دوری پر واقع تھا۔ ہمیں رعنا نذر سے ملنا تھا۔رعنا کا تعلق کیرالہ کے علاقے مالا بار سے ہے۔فنانس اور بزنس مینجمنٹ کی کنسلٹنٹ ہے۔کوئی انتیس تیس برس کی لڑکی کی پراعتماد شخصیت متاثر کن تھی۔ میں نے سرمد خان کو بتایا کہ یہ ہندوستان میں سب سے پہلے مسلمان ہونے والوں کی بیٹی ہے۔سب سے پہلی مسجد بھی مالا بار میں تعمیر ہوئی تھی۔رعنا سے سرمد نے اپنی کمپنی کے کچھ معاملات پر بات کرنا تھی‘ میں اس لئے آیا تھا کہ لاہور کے رائے بہادر میلہ رام کے بیٹے اور متحدہ پنجاب کے رکن اسمبلی رائے بہادر سرن داس پر بھارت میں شائع شدہ کتاب وصول کر سکوں۔ رعنا یہ کتاب سرمد کے کہنے پر میرے لئے بھارت سے لائی تھی۔(جاری ہے)