ہمارے ہاں کچھ عرصے سے لیول پلیئنگ فیلڈ کی اصطلاح نہایت دیدہ دلیری اور تسلسل کے ساتھ استعمال کی جارہی ہے، جس کا ظاہری مطلب تو کھیلنے یا کارکردگی دکھانے کے لیے یکساں ماحول،مواقع اور سہولتیں فراہم کرنے کے ہیں لیکن یہاں کہنے والے کا اصل مطلب: گلیاں ہو جان سُنجیاں ، وِچ مرزا یار پھرے والا ہوتا ہے۔ دوسری جانب ماحول فراہم کرنے والے ایمپائروں یا ویمپائروں کی تابع داری، عمل درآمدی یا کسی ان دیکھی مجبوری کا یہ عالم ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے خواہش کے پُتلوں کو ایسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کر دی گئی ہے، جو مطالبہ کندگان نے شاید خواب میں بھی نہ دیکھی تھی۔ یہ بالکل ویسی ہی جی حضوری، آداب بجائی یا برخورداری ہے، جو نائن الیون کے فوراً بعد بُش کی ایک گیدڑ بھبکی کے بعد ’’مَیں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘ والے پرویز مشرف نے دکھائی تھی۔ اپنے عہد کی مقبول ترین شاعرہ پروین شاکر نے شاید ایسے ہی کسی عجلت انگیز اور سُرعت آمیز اقدام کے بعد کہا تھا: مَیں نے تو ایک بات کی اُس نے کمال کر دیا بظاہر نڈر دکھائی دینے والے ایک خود مختار اور مضبوط فوج والے حکمران کی ایسی خوفیدہ دلی دیکھ کے ہمارے معروف مزاحیہ پنجابی شاعر ماسٹر الطاف نہ صرف بندے بندے کو حوصلہ اور تسلیاں دیتے پھرتے تھے بلکہ ایٹمی قوت والے صدر سے سرزد ہونے والی بزدلی کی وضاحتیں بھی کرتے جاتے تھے: ڈر نہ بِیبا کُش نئیں ہُندا ہر اِک بندہ بُش نئیں ہُندا پیار دا بُوہا چَوڑ چَوپٹ اے ایس تے پُل یا پُش نئیں ہُندا ہر اِک شے دے ہُندیاں سُندیاں کُجھ بندیاں کول کُش نئیں ہُندا آخری شعر میں تو شاید انھوں نے صدر موصوف کے انجام پہدکھائی دینے والی بے حِسی اور موت کے بعد پورے ملک میں طاری ہونے والی سرد مہری اور عدم دلچسپی کی بھی نشان دہی کر دی تھی، ہمارا خیال ہے، جسے ہر دور کے خودسر ناخداؤں کو پَلّے باندھ لینا چاہیے: مر جائیے تے روندا کوئی نئیں جَمن تے کوئی خوش نئیں ہُندا بات کی پتنگ ذرا ماضی کی طرف جھکولا کھا گئی، ہم بتانا یہ چاہ رہے تھے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ماضی کے مجرمان اور حال کے مُدعا الیہان کو ایسی لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کر دی گئی ہے کہ علاقے کا بچہ بچہ جسے ڈیول پلیئنگ فیلڈ کے نام سے یاد کر رہا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جب سے ایک منتخب حکومت کو چمک یا دھمک والے عدمِ اعتماد کے ذریعے چلتا کیا گیا ہے، تب سے ہمارا ہر قدم ترقی یا بہتری کی بجائے زوال اور پستی کی جانب جا رہا ہے۔ جن زعیموں کی ’سپیڈوں‘ کے قصیدے پڑھ پڑھ کے انھیں عنانِ اقتدار سونپی گئی تھی، انھوں نے موقع و مفاد پرست اتحادیوں کے ساتھ مل کے اتنی تیز رفتاری سے ملک کو اتھاہ گڑھے میں پھینکا ہے کہ اسے اس سابقہ سطح پہ لانے میں شاید زمانے لگ جائیں۔ ہماری بدقسمتی یہ کہ آج بھی ان کے منھ سے کسی معاشی پالیسی، ملکی خیر خواہی یا عوامی خوشحالی کے ایجنڈے کی بجائے مخالفین کے لیے نفرت اور انتقام کی جھاگ ہی برآمد ہو رہی ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ نگران ہرکارے بھی در اصل انہی کے بغل بچے ہیں اور انھی کی طرح ہر وہ کام کر رہے ہیں، جس سے اسی شہنشاہی و کجکلاہی کی بُو آتی ہے۔ تمام ڈری ہوئی، ہری ہوئی بلکہ اخلاقی طور پر مری ہوئی سیاسی پارٹیاں، ایک مقبول ترین پارٹی کا نام نشان مٹانے کے لیے وہ وہ حیلے کر رہی ہیں ۔ یاد رہے یہ وہی سیاسی پارٹیاں ہیں جنھوں نے مشرف کے جانے کے بعد اسمبلی ممبر بننے کے لیے مقرر کی گئی، تعلیم کی شرط سب سے پہلے ختم کی تھی اور پی ڈی ایم بننے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے ووٹ کے درپے ہوئے تھے۔ اپنے اوپر قائم مقدمات ایسے ختم کیے جیسا سکول کا بچہ مضبوط اریزر سے کچی پنسل کے نشانات مٹاتا ہے۔ دو تین برسوں سے عملی طور پر حکومت میں ہونے کے باوجود ملک میں ہونے والی مہنگائی اور ابتری کی ذمہ داری قبول کر کے عوام سے معافی مانگنے کی بجائے’ اِک واری فیر‘ کی رَٹ لگائے ہوئے ہیں ۔کسی دانشور کا قول کہیں پڑھا تھا کہ جس دور میں چور کے ہاتھ کاٹے جاتے تھے، وہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا اور جب سے چوروں کو سر آنکھوں پہ بٹھایا جانے لگا ہے، پستیاں ہمارا مقدر بنتی چلی گئی ہیں۔ ہمارے پسندیدہ اور اُردو کے معروف مزاح نگار ابنِ انشا نے ایک جگہ لکھا ہے کہ: ’’آزمائے ہوئے کو آزمانا، زمانہ جہل کی نشان دہی کرتا ہے۔‘‘ لیول پلیئنگ فیلڈ کے بارے میں ہمارا تو یہ خیال ہے کہ سب سے پہلے اس کا اطلاق عوامی سطح پہ ہونا چاہیے۔ عام آدمی کی بڑی شدید خواہش ہے کہ ان سیاست دانوں، جاگیرداروں اور اشرافیہ کے بچے بھی سرکاری سکولوں میں پڑھ کے اخباری اشتہاروں کے ذریعے نوکری ڈھونڈیں۔ بل جمع کروانے کے لیے پڑوسی سے قرض لیں، گیس کے لیے بازار سے سلنڈر بھروا کے لائیں، اعلیٰ تعلیم کے لیے انھیں بھی ماں کے زیور بیچنے پڑیں، بہنوں کی شادیاں ان کی نیندیں حرام کیے رکھیں۔ ابنِ زرداری یا بنتِ شریف کو پانچویں ساتویں سکیل کی کلرک یا استانی کی ملازمت کے لیے بیس بیس جگہ درخواست دینی پڑے۔ انور مسعود سے کسی نے پوچھا تھا کہ آپ کو اتنی شہرت، عزت اور نیک نامی ملی، کیا اب بھی دل میں کوئی خواہش ہے؟ تو انھوں نے بلا تمہید کہا : میری حسرت ہے کہ کوئی انگریز میرے پاس آئے، جس نے ہاتھ میں نوکری، قرضے یا داخلے کا کوئی فارم پکڑا ہو اور وہ مجھ سے التجا آمیز انداز میں کہے کہ ’پلیز مجھے اُردو میں فارم پُر کر دیجیے۔ جہاں تک سیاست میں لیول پلیئنگ فیلڈ کی بات ہے۔ حکیم جی کہتے ہیں: اس کا حق تو اسی طرح ادا ہوتا ہے کہ ہر سیاست دان کسی نہ کسی جرم کا مرتکب ہے۔ ان سب کو خاندانوں اور ہمدردوں سمیت کسی نہ کسی جیل میں سختی سے اس طرح بند کر دینا چاہیے کہ میڈیا پہ ان کی خبر تک نہ چلے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ سب کے ہر طرح کے کردہ یا ناکردہ گناہ معاف کر کے سیاست کے میدان میں اترنے کا موقع دینا چاہیے۔ لیول پلیئنگ فیلڈ کی تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ان سب سیاسی گرگوں پہ سخت قسم کی پابندی لگا کے بالکل نئی نکور، پڑھی لکھی اور باشعور قیادت کو سامنے لایا جائے۔ ہر شعبے کے ماہر ترین شخص کو اس شعبے کا وزیر بنایا جائے۔ اس یک طرفگی سے آپ عوام، ضمیر اور غیر جانب دار طبقے کو مطمئن نہیں کر سکتے؟ اگر عام آدمی ڈرا ہوا یا خاموش ہے تو اسے ان کی بزدلی یا فیصلے کی تبدیلی کی بجائے طوفان کا پیش خیمہ سمجھا جائے۔