رفیق آفریدی کا گھر پاک چائنا دوستی کی جیتی جاگتی مثال ہے اس کے گھر کے لان میں اس دوستی کے زندہ جاویدثبوت نے مجھے دیکھا تو ’’انکل ‘‘ کی زوردارآواز کے ساتھ دوڑتی ہوئی آئی اور مجھ سے لپٹ گئی رفیق کی بیٹی عنایہ‘ میری بیٹی بریرہ کی ہی ہم عمر ہے۔ میں نے عنایہ کو پیار سے بازوؤں میں اٹھایا اور ہوا میں اچھا ل دیا۔ عنایہ خوشی سے کلکاریاں مارنے لگی اس نے انگریزی میں مجھ سے دوبارہ ہوا میں اچھالنے کے لئے کہا اور پھرمیں اسے اس وقت تک اچھالتا رہا جب تک بھابھی سبز چائے سے بھری کیتلی نہ لے آئیں ،میرا دوست رفیق آفریدی چین کاداماد ہے درہ آدم خیل کے اس آفریدی نے چین سے دوستی رشتہ داری میں بدل دی ہے اور الحمداللہ خوشحال اورپرمسرت زندگی گزار رہا ہے۔ عنایہ ہوا میں قلابازیاں کھانے کے بعدوہیں لان میں سائیکل چلانے لگی اور میں رفیق کے ساتھ سبز چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے گپ شپ کرنے لگا ،کورونا کی تیسری لہر سے بات نکلی اور نکلتے نکلتے کورونا کی ویکسین پر آگئی ،رفیق نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیا کہ کل ہی اسکی اہلیہ راولپنڈی کے کمبائنڈ ملٹری اسپتال میں ویکسین لگوا کر آئی ہیں مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ بھابھی تو ساٹھ برس کی نہیں اور حکومت تو صرف ضعیف العمر افراد کو ہی ویکسین لگا رہی ہے پھر یہ کیسے ممکن! میری حیرت بھانپتے ہوئے رفیق کہنے لگا’’آپکی بھابھی کو چینی حکومت کی طرف سے ویکسین لگائی گئی ہے ‘‘ میں نے فورا کہا کہ لیکن بھابھی تو پاکستان میں ہیں‘ میری اس بات پر رفیق مسکراتے ہوئے بولا ’’ وہ انٹارکٹیکا میں بھی ہوتی تو چینی حکومت اس سے رابطہ کرکے اس تک ویکسین پہنچاتی ان کے پاس اپنے اایک ایک شہری کا ڈیٹا ہے کہ کون کہاں ہے ،آپکی بھابھی کے پاس چینی سفارتخانے سے کال آئی کہ آپکی ویکسین اسپتال پہنچائی جاچکی ہے آپ فلاں تاریخ کو اتنے بجے پہنچ جایئے گا یہ وہاں گئیںاور ویکسین لگوا کر آگئیں‘‘۔ میرے حیران ہونے کے لئے یہی بہت تھا کہ رفیق مسکراتے ہوئے گویا ہوا ’’یہ کورونا سے پہلے کی بات ہے کہ آپکی بھابھی عنایہ کے ساتھ اپنے میکے گئیںاور ظاہر ہے وہاں تھیلے بھر بھر کر شاپنگ بھی کی اورپھر واپس پاکستان بھی آگئیں۔ کچھ دنوں بعد انہیں چین سے ایک میسج آیا کہ آپ نے فلاں دن فلاں جگہ سے بچوں کے اس برانڈ کے جوکپڑے خریدے تھے وہ استعمال نہ کیجئے گا ،پتہ چلا ہے کہ ان میں شامل کچھ کیمیکلز بچوں کی جلد کے لئے نقصان دہ ہوسکتے ہیں ،ہم آپکی رقم آپکے اکاؤنٹ میں منتقل کررہے ہیں ‘‘۔رفیق آفرید ی نے بتایا کہ یہاں اسلام آباد ہی میں ہمارے کمپاؤنڈ میں تھائی لینڈ سے ایک چینی لڑکی آئی ہوئی ہے ،وہ وہاں کسی پاکستانی نوجوان سے متعارف ہوئی اور پھر اسکے ساتھ پاکستان بھی آگئی ،اس کی اس بندے کے گھر والوں سے نہیں بنی ،صورت حال ایسی ہوئی کہ وہ لڑکی نفسیاتی سی ہوگئی ،چینی سفارتخانے کو علم ہوا تو وہ فورا اس تک پہنچے اب انہوں نے اسے یہاں فلیٹ کرائے پر لے کر دیاہے اور اسکا علاج ہورہا ہے ‘‘۔ دنیا میں ریاستوں کا اپنے شہریوں سے ایسا ہی رویہ ہوتا ہے اس میں امیر اور غریب ریاست کا کچھ ایسا فرق نہیںہے ،چند ماہ پہلے استنبول سے فخر بھائی یہاں آئے ہوئے تھے وہ کورونا کی وجہ سے پھنس گئے ،فخر بھائی بھی اتفاق سے رفیق آفریدی کی طرح کے پی کے سے ہیں۔ انہوں نے ترکی میں گھر بسا رکھا ہے اوروہ ترکوں کے داماد ہیں ،انہیں ترکی میں رہتے ہوئے بہت زیادہ عرصہ نہیں ہوا ان کی ترکی بھی ایسی ہی ہے جیسے اپنے وزیر ستان والے کسی پشتون بھائی کی اردو ہوسکتی ہے ۔فخر بھائی یہاں ایک ترک وفد کے ساتھ آئے تھے کورونا کی وجہ سے فضائی نقل و حمل رکی تو جو جہاں تھا وہ وہیں رہ گیا۔فخر بھائی اگرچہ اصلا نسلا ترک نہیں لیکن اب وہ ترکی کے شہری ہوچکے ہیں اور ترک حکومت کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ ان کا شہری ہے۔ انہوں نے فخر بھائی سے رابطہ کیا ،اسلام آباد کے ترک سفارتخانے سے انہیں کال گئی کہ وہ چاہیں تو اسلام آباد میں انکی رہائش کا انتظام کیا جاسکتا ہے فخر بھائی نے انہیں شکریے کے ساتھ منع کر دیا کہ میں یہاں اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہوں اور محفوظ ہوں‘ اس کے باوجود ترک سفارتخانہ ان سے برابر رابطے میں رہا انہیں بتایا کہ جلد ہی خصوصی پرواز کا انتظام کیا جارہا ہے فخر بھائی اسی پرواز کے لئے اسلام آباد آئے تو میرے گھر بھی تشریف لائے انہوں نے مجھے بتایا کہ یہاں آنے سے پہلے ترک سفارتخانے سے مجھے ایک خط واٹس ایپ کیا گیا جس میں تصدیق کی گئی تھی کہ میں ترک شہری ہوں اور سفارتخانے کے علم میں میری نقل و حرکت ہے،یہ خط اس لئے تھا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے کہیں پولیس روکے تو یہ خط سامنے کر دیا جائے۔ اسی خط میں ایک فون نمبربھی تھا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں اس نمبر پر کال کر لیجئے گا۔ مجھے یہ سب واقعات ایک ایک کرکے یاد آرہے ہیں اورمیں نے تھوڑی دیرپہلے ہی اپنے برادر نسبتی کے دوست طاہر خان کی فون کال وصول کی ہے۔ میرا برادر نسبتی سیکنڈ انجینئرجواد مرچنٹ نیوی سے وابستہ ہے۔ طاہر نے اسے بتایا کہ ان کا دوست ان کا ہم وطن سری لنکا کے قریب سمندر میں ایک کارگو جہاز پر پھنسا ہوا ہے۔ کارگو جہاز کے سامان کی فروخت کا تنازع ہے جس پر سری لنکن حکومت نے جہاز روک رکھاہے اسکا عملہ بھی جہاز کے ساتھ پھنساہوا ہے۔ نو ،دس رکنی عملے میں سیکنڈانجینئر سمیت دو پاکستانی شہری بھی ہیں یہ لوگ کھلے سمندر میں بے یارو مددگار پڑے ہوئے ہیں ،انہوں نے اپنے گھر والوں سے سب چھپا رکھا ہے و ہ سب سمجھ رہے ہیں کہ یہ حسب معمول جہاز پر ملکوں ملکوں گھوم رہے ہیں وہ نہیں جانتے کہ ان کے بیٹے کس حال میں ہیں۔یہ بھی منتظر ہیں کہ جہازکی کمپنی کا تنازعہطے ہوتو شاید انہیں آٹھ نو ماہ کی تنخواہیں بھی مل جائیں۔ اب حال یہ ہے کہ سری لنکن حکومت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر راشن پہنچا کر ان کے جسم و جاں کا رشتہ بچائے ہوئے ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ’’ریاست ‘‘ کہاں ہے ؟ حکومت کہاں ہے ؟ اسے خبر کیوں نہیں کہ پڑوس میں دو فرزند وطن آٹھ ماہ سے کھلے سمندر میں بے یارو مددگار پڑے ہیں۔آخر ایک ایٹمی طاقت اوربائیس کروڑ کی آبادی کے بڑے ملک کے شہری اتنے بے یارو مددگار کیوں ہوتے ہیں ؟؟؟