ہمارے وزیر اعلیٰ پنجاب ، قبائلی روایات کے امین ہیں، آنے والے مہمانوں کی عزت و توقیر اور "ٹہل،سیوا" میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے اور اگر یہ مہمان۔۔۔ مشائخ و سجادگان ہوں، تو پھر انہیں اس کا بخوبی ادراک ہے کہ روحانی اور دینی نسبتوں کے امین، ان خانقاہ نشینوں کے لیے کس اعزاز و ا کرام کا اہتمام ہونا چاہیے ، چنانچہ گذشتہ ہفتے ، 90۔شاہراہِ قائد اعظم لاہور کے پُرشکوہ ایوان میں ڈاکٹرپیرنور الحق قادری و فاقی وزیر مذہبی امور کی قیادت میں، مشائخ و سجاد گان کے ایک وقیع اور عالی مرتبت وفدنے جناب وزیر اعلیٰ پنجاب سے ملاقات کی،جس میں صاحبزادہ پیر امین الحسنات شاہ، صاحبزادہ سید حامد سعید کاظمی،صاحبزادہ پیر شمیم صابر صابر ی،خواجہ غلام قطب الدین فریدی،پیر سائیں شعبان فرید صابری، صاحبزادہ میاں جلیل احمد شرقپوری،صاحبزادہ حامد رضا،صاحبزادہ پیر معظم الحق،پیر حبیب عرفانی سمیت دیگر شخصیات جلوہ افروز ہوئیں، جناب وزیر اعلیٰ کی ٹیم میں وزیر قانون راجہ بشار ت،وزیر اوقاف سید سعید الحسن شاہ،پرنسپل سیکرٹری برائے وزیر اعلیٰ،آئی جی پنجاب،ایڈیشنل ہوم سیکرٹری،سیکرٹری اوقاف، سیکرٹری اطلاعات اور دیگر عمائدین شامل تھے،ہمارے مشائخ اور خانقاہ نشین طبعاً ہی صلح جُو،امن پسند،محبت کے داعی،ادب،آداب اور رَکھ رکھائو سے آرا ستہ ۔۔۔موضوع اور معاملے کی تلخی اپنی جگہ ۔۔۔مگر تلخ بات کو محبت آمیز پیرائے میں کرنا ہی تو اصل حوصلہ اور بُرد باری ہے۔حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء فرمایا کرتے تھے کہ صوفیاء کاراستہ،عام لوگوں کے راستے سے مختلف ہوتا ہے۔عام لوگوں میں یہ دستور ہے کہ وہ نیک کے ساتھ نیک اور بُرے کے ساتھ بُرے ہوتے ہیں،لیکن درویشوں میں یہ دستور نہیں،بلکہ درویش۔۔۔ نیک و بَد دونوں کے ساتھ ہی نیک اور خیر والا ہوتا ہے ، ایک دن آپؒ فرمانے لگے:اگر کوئی کانٹا رکھے اور تو بھی اس کے عوض کانٹارکھے، تو ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہوجائیں گے ، آپؒ کا یقین تھا کہ اگر برائی کا بدلہ برائی ہی سے دیا جائے، تو یہ دنیا انسانوں کی بستی نہ رہے گی ۔ حضرت بابا فریدؒ کے ایک عزیز،خواجہ عزیز الدین،ایک دعوت میں شرکت کے بعد،حضرت خواجہ نظام الدین کی خدمت میں حاضر ہوئے،حضرت شیخ نے دریافت فرمایا، کہاں تھے ؟ عرض کیا ، ایک دعوت میں گیا تھا ،وہاں لوگ یہ کہتے تھے کہ : شیخ نظام الدین اولیاء کو بڑا فراغِ باطنی حاصل ہے، انہیں اس جہاں کا کوئی غم اور فکر نہیں ، حضرت محبوب الہٰی نے یہ سن کر فرمایا :جس قدر غم واندوہ مجھے رہتا ہے ، کسی کو اس جہان میں نہ ہوگا، اس واسطے کہ اتنی مخلوق میرے پاس آتی ہے اور اپنے رنج اور تکلیف بیان کرتی ہے ، ان سب کا بوجھ میرے دل و جان پر پڑتا ہے ،وہ عجب دل ہوگا،جو مسلمان بھائی کا غم سُنے اور اس پر ، اسکا اثرنہ ہو ۔یہ اربابِ تصوّف و طریقت ساری زندگی خلقت کی داد رسی اور دردمندی میں مصروفِ عمل اور ان کے لیے آرام و راحت کے طلبگار رہے ، لوگ، جب سماج کے ستائے ہوئے اپنی درد بھری داستانیں سناتے ، تو ان کا دل بے چین۔۔۔اور دل جوئی کے لیے بیقرار ہوجاتا ، مخالفین کی مخالفتوں اور طعن و تشنیع سے بھی ان کے دل پر میل نہ آتا ،مشائخ وسجادگان اپنے اسلاف اوربزرگوں کے اس طرزِ حیات اور اسلوبِ زیست کے امین ٹھہرے، بایں وجہ ان کا ہمہ وقت احترام مقدم ۔تاہم ’’حالیہ وقف ایکٹ‘‘ کے ضمن میں ان برگزیدہ ہستیوں ،سجادہ نشینوں اور علماء و صلحاء کے روبرو، آج کل ’’جوابدھی‘‘کا سامنا تو رہتا ہی ہے ،یہ مجلس بھی کچھ ایسی ہی رہی ، مشائخ اور سجاد گان نے جی بھر کر کہیں ، بلکہ دل سے کہیں اور دل میں اُتاردیں، اس امید پر کہ۔ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی۔اگرچہ گذشتہ دنوں صدر پاکستان کی طرف سے آراستہ قومی مشاورتی اجلاس میں بھی دینی طبقات کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے، گورنر پنجاب نے اس پر بڑے واضح اورمؤثر پیرائے میں بات کی ، لیکن یہ زخم ذرا زیادہ گہرا ہے ، آسانی سے مند مل ہونے والا نہیں ، ارباب اختیار چارہ سازی کے خواہاں تو ہیں ، لیکن بعض امورمیں بین الاقوامی کمٹمِنٹ اور انٹرنیشنل پالیسیز حائل ہوتی ہیں، جو ملکی یا علاقائی سطح پر "Compromise" نہیں ہو سکتیں، البتہ اس سارے معاملے میں گورنمنٹ کی طرف سے ’’ایڈمنسٹریٹوریلیف‘‘ممکن ہوسکتا ہے،جس کے لیے ایک مصالحانہ اور مفاہمانہ ماحول در کار ہے،جس کی طرف ہم ارباب ِسجادہ و مصلّٰی جلدی جلدی مائل نہیں ہوتے، بلکہ اس ایکٹ کی خطر ناک اور خوفناک تعبیر اور تشریح کیلئے کچھ ضرورت سے زیادہ اور قدرے بلا جواز کمربستہ ہیں، گزشتہ دنوں، ہمارے ایک دیرینہ کرم فرما قدرے غصّے کے عالم میں فرمانے لگے کہ عجیب ایکٹ اور قانون نافذ ہوگیا ، جس کے تحت، جہاں بھی نیکی کا کام ہوگا حکومت اس مقام کو اپنی تحویل میں لے لے گی ، انہیں بتایا گیا کہ وقف پراپرٹی آرڈیننس 1960ء کی یہ تعریف کم و بیش ساٹھ سال پرانی ہے ؛ "Waqf property" means property of any kind permanently dedicated by a person professing Islam for any purpose recognized by Islam as religious, pious or charitable. دراصل، حالیہ وقف پراپرٹیز(ترمیمی) ایکٹ 2020 ء کے نتیجہ میں صوبہ بھر میں ایسی املاک جو یا تو کسی وقف نامہ کے تحت وقف ہیں یا اپنے مصرف /استعمال (Use) کی بنیاد پر وقف کے زُمرہ میں آتی ہوں ، کو محکمہ اوقاف کے پاس رجسٹرڈ کئے جانے کا عمل زیر کارروائی ہے ، جس پر وطن عزیز کے دینی طبقات میں تشویش اور اضطراب پایا جاتا ہے ۔ موجودہ حکومت چونکہ مشائخ و سجادگان اور علماء و دینی اداروں کے ساتھ ، ہمیشہ ہی بہترین تعلقات کار کی خواہاں رہی ہے ۔ بنابریں مذکورہ اجلاس میں معاملہ کے مختلف پہلوؤں پر تفصیلاً گفتگو ہوئی اور خوب ہوئی ۔ مشائخ و سجادگان کی طرف سے پیش آمدہ اعتراضات پر غور و خوض کے لیے پنجاب کی سطح پر وزیر قانون و پارلیمانی امور،وزیر اوقاف و مذہبی امور،ایڈ یشنل چیف سیکرٹری (داخلہ) ، سیکرٹری اوقاف و مذہبی امور پر مشتمل ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق ہوا۔ کمیٹی اپنے TOR's کی روشنی میں مشائخ و سجادگان و دینی طبقات کے تحفظات کا جائزہ،ان تحفظات کے ازالہ کا انتظامی لائحہ عمل اور دینی طبقات کے ساتھ’’اعتماد سازی‘‘جیسے امور پر خصوصی توجہ مرکوز کرے گی۔ دراصل یہ سب کچھ بین الاقوامی ضوابط کے تحت مذہبی و فلاحی ادارہ جات کے نام پر ہونیوالی ’’منی لانڈرنگ‘‘کے سدباب اور ان ادارہ جات کو موصول ہونیوالے عطیات/امداد وغیرہ کو Regulate کرنے کیلئے FATF کی نشاندہی پر وقف،ٹرسٹ اور کوآپریٹو سوسائٹیز کی رجسٹریشن کے قواعد و ضوابط کو مزید موثر بنانے کی ضرورت کے تحت ہوا، وزارت داخلہ حکومت پاکستان کی طرف سے ، اُن کی تحریک پر پاکستان کے تمام متعلقہ صوبائی محکموں کے قوانین میں ترامیم کرتے ہوئے متعلقہ اسمبلیوں سے بل پاس کرائے ،جو اس وقت نافذ العمل ہیں۔ دراصل پنجاب وقف پراپرٹیزآرڈنینس1979 کی شق نمبر6 کے تحت تمام وقف پراپرٹیز کی رجسٹریشن کے یہ قوانین پہلے سے ہی موجود تھے ؛ جو کہ حسبِ ذیل ہے: "Registration of Waqf Property. Every Person incharge of , or exercising control over the management of any property and every person creating a waqf after the commencement of this Ordinance shall get such waqf property registered in such manner within such time and with such authority as may be prescribed." اس پر مزید گفتگو، آئندہ کسی موقع پر( ان شاء اللہ )