یہ وہ سوال ہے جو 84 برس کے محمود شام کو آج بھی بے چین کئے رکھتا ہے اوروہ اس سوال کے جو اب کے لئے وہ ارباب سیاست اور اکابرین ملت اور فیصلہ سازوں کے ذہنوں کو ٹٹولتے رہے ہیں ۔یہ بات باعث رشک ہے کہ وہ اس عمر میں بھی پوری توانائی کے ساتھ قلم و قرطاس سے جڑے ہوئے ہیں۔رب کریم صحت او ر آسودگی کے ساتھ ان کی یہ توانائیاں سلامت رکھے اور وہ اسی طرح خرد افروزی میں اپنا حصہ شامل کرتے رہیں۔ محمود شام صحافتی ادبی اور سیاسی حلقوں میں صبح کے ستارے کی مانند امید کا استعارہ ہیں ۔مسلسل جدوجہد ،اورکچھ کرتے رہنے کی لگن نے ان کی حرمت قلم کو ہمیشہ تابناکی عطا کی ہے۔ وہ ایک مکمل صحافی ،معروف ادیب اور سوز و گداز میں ڈوبے ایک سچے شاعر ہیںاور ہر ابلاغی جہت میں وہ زمین سے جڑے اخلاص کی مکمل تجسیم ہیں۔صحافت اور سیاست کے ملاپ نے انہیں پاکستان کی سیاست کا ایک ماہر نباض بنادیا ہے ۔ وہ پاکستان کی ریاستی سلامتی ،ترقی اور روشن مستقبل کی تڑپ اور پیاس رکھتے ہیں تو بعینہہ وہ پاکستان کے عوام کی خوشحالی ،وقاراور آسودگی کے خوابوں کو بھی کبھی ماند نہیں ہونے دیتے۔ زیر مطالعہ کتاب ’’ روبرو ‘‘ ،جو 1969کے ہنگامہ خیز سیاسی دور سے 1977ء کے پر آشوب دور پر محیط سیاسی رہنمائوں سے لئے گئے انٹرویوز پر مشتمل ہے ،پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک مستند دستاویز ہے۔ یہ انٹرویوز محمود شام کے مطابق ’’ عام انٹرویوز نہیں ہیں ۔ تاریخ پاکستان کے ایک انتہائی نازک اور فیصلہ کن موڑپر ہمارے قائدین کی سوچ کے مظاہر ہیں ۔ جن سے آج کے گھمبیر معاملات کو سمھنے اور سلجھانے میں یقینا مدد مل سکتی ہے۔‘‘ اس میں شامل بہت سے قائدین کے نام آج کے پاکستان کے نوجوانوں کے لئے یقینا اجنبی ہونگے مگر وہ کبھی پاکستان (متحدہ پاکستان) کی سیاست کے مضبوط ستون ہوا کرتے تھے اور یہ کتاب اور اس میں شامل ان کے انٹرویو ز سے ان سیاسی قائدین کی سیاسی سوچ اور انداز فکر سے رسائی ممکن ہو رہی ہے۔ جیسے شیخ مجیب الرحمان ، عبدالحمید خان بھاشانی ،فضل القادر چوہدری،نورالامین، خان عبدالقیوم خان ، خان عبدالولی خان ،جی۔ایم۔سید ،مولوی فرید احمد، شاہ احمد نورانی، ذوالفقار علی بھٹو اور مولانا مفتی محمود ۔ ان کے علاوہ بھی کچھ اور اہم سیاسی قائدین کے انٹرویوز اس کتاب میں شامل ہیں ۔ دس سوالات کے ساتھ محمود شام نے یہ انٹرویوز اگرچہ اپنی صحافتی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے لئے تھے مگر اس تمام تر کوشش میں ان کی پاکستان او ر اس کے عوام کے ساتھ دردمندی اور ریاست کے روشن مستقبل کی کھوج نمایاں نظر آتی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ متحدہ پاکستان اور موجودہ پاکستان کے سیاسی قائدین کے درمیان افتراق کو بڑی دردمندی اور گہرے دکھ کے ساتھ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔اپنے ابتدائیے میں وہ اس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔ ’’ قائدین کی آنکھوں میں اس وقت احساس زیاں نظر آتا تھا ۔ حالانکہ اس وقت وہ پھر بھی ذمہ داری سے جدوجہد کر رہے تھے۔ اب تو قائدین رہے ہی نہیں۔اب کسی کی آنکھ میں کوئی پشیمانی نہیں ہے۔پارٹیاں لمیٹڈ کمپنیاں بن گئی ہیں ۔شہزادے اور شہزادیاں اتاری جارہی ہیں ۔‘‘ اسی ضمن میں وہ مزید لکھتے ہیں۔’’ گزشتہ صدی والے لیڈروں ،جنرلوں اور پروفیسروں سے کچھ مغز حاصل ہوتا تھا ۔ اب والے اول تو سنجیدہ گفتگو سے گریز کرتے ہیں ۔ ان کے پاس بیٹھ بھی جائیں تو نئے ماڈل کی کاروں ، ڈی ایچ اے ، بنگلوں ، دبئی ،لندن ،نیو یارک کے اپارٹمنٹوں کی باتیں ہوتی ہیں۔‘‘ سیاست دانوں کے اس مزاج نے پوری سیاست اور حکمرانی کا انداز ہی بدل کر رکھ دیا ہے اب سیاست مالی مفادات اور مراعات کے حصول کے محور پر رقصاں ہے۔ سابقہ مشرقی پاکستان ( موجودہ بنگلہ دیش ) کے ایک اہم اور متحرک سیاسی رہنما مولانا عبد الحمید خان بھاشانی کی اس وقت کی سیاست میں تمام تر اہمیت کے باوجود ان کا سادہ طرز زیست ان کے شخصی بلند قامتی کا مظہر تھا۔ محمود شام جب ان سے ملنے کے لئے پہنچے تو کیا دیکھا خود ان کے الفاظ میں ملاحظہ ہو۔’’ وہ ہمیں ساتھ لے کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے۔ پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے ہم ایک جھونپڑی نما مکان کی طرف بڑھ رہے تھے۔آس پاس دیہاتی اپنے اپنے کام میں مصروف ہیں ، سیاست دانوں کے ساتھ جو حاشیہ بردار ہمیشہ نظر آتے ہیں میں ان کی تلاش میں ہوں، لیکن میری تلاش ناکام رہی ہے۔ اس جھونپڑی کے باہر ہی لکڑی کی کرسی اور بنچ پڑا ہے ۔ ہم اس پر بیٹھ جاتے ہیں۔ مولانا ظہر کی نماز پڑھنے کے لئے چلے جاتے ہیں ۔تھوڑی دیر کے بعد وہ لوٹتے ہیں ۔ گفتگو کا آغاز ہوتا ہے ۔ چار پانچ جملوں کے بعد بات کٹ جاتی ہے ، چٹائی کی دیوار پر دستک کی آواز سنائی دیتی ہے ۔ مولانا اٹھ کر اندر جاتے ہیں اور لوٹتے ہیں تو ہاتھ میں ٹرے اٹھائے ہوئے جس پر کپڑا پڑا ہوا ہے ۔ یہ بی بی لوگ نے بنایا ہے ۔ رمضان میں مہمان داری تو ہو نہیں سکتی ۔ آپ لوگ ساتھ لے جائیں ۔رستے میں روزہ کھول لیجئے گا۔‘‘یہ طرز بود و باش اس سیاسی رہنما کا تھا جس کی ایک آواز پر پورے پاکستان میں ہلچل مچ جاتی تھی۔پھر یہ کہ اس سادہ دیہاتی زندگی کے اسلوب سے یہ ہرگز نہ سمجھا جانا چاہیئے کہ مولانا کو دنیا میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور پاکستان کے مسائل اور ان کے اسباب کا انہیںکچھ علم نہیں۔وہ عالمی سیاست اور اس کے محرکات پر گہری نظر اور اپنا ایک واضح نقطہ ء نظر رکھتے تھے یہی ان کی سیاسی بلند قامتی کی بنیاد تھی۔ یہ انٹرویوز اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ آج کے نوجوانوں کو اس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر آج کے سیاست دانوں کو اسکے مطالعہ کی شدید ضرورت ہے ۔یہ کتاب موجودہ دور کے ہر سیاستدان کویہ کتاب ضرور بھیجنی چاہیئے۔شائد کچھ ندامت کے آنسو ہی ان کے طرز عمل کو تبدیل کرنے کا باعث بن سکیں۔