شیخ رشید کو جب وفاقی وزیر داخلہ بنایا گیا تو حکومت میں موجود تمام لوگوں کی رائے یہی تھی کہ ان کو یہ ذمہ داری حزب اختلاف کے گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کو نکیل ڈالنے کے لئے دی گئی ہے ۔پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے بھی تصدیق کی کہ شیخ رشیدکو نئی ذمہ داری ہمیں ڈرانے کے لئے دی گئی ہے ۔ اخبارات ،رسائل اور جرائد میں لکھنے والے کالم نگاروں اور ٹی وی پروگرامات کے میزبانوں کی مشترکہ رائے بھی یہی ہے کہ شیخ رشید کونئی ذمہ داری حزب اختلاف کو قابو کرنے کے لئے دی گئی ہے ۔ عوام میں بھی اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ان کو یہ ذمہ داری اس لئے سونپ دی گئی ہے کہ ان کو حزب مخالف کو قابو کرنے کا گر آتا ہے ۔ آپ یوں سمجھ لیں کہ شیخ رشید کو نئی ذمہ داری اس لئے دی گئی ہے کہ وہ زبان اور قانون کو مخالفوں کے خلاف استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں ۔اگر ہم اس سارے منظر کو سامنے رکھیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ حکومت اور مقتدر قوتیں بالکل غلط سمت پر جاری ہیں ۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس اہم ذمہ داری پر تعیناتی کرتے وقت حکومت اس بات کو مد نظر رکھتی کہ وفاقی دارالحکومت اور چند اہم وفاقی محکمے اس وزارت کے ماتحت ہیں ۔ ان اہم محکموں میں جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلی لانی ہے اس لئے ذمہ دار اور اہل فرد کا انتخاب کیا جاتا ۔لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے ۔ شیخ رشید جب وفاقی وزیر داخلہ نامز د ہوئے تو کسی نے ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پولیس کے بوسیدہ نظام کو درست کرنے کے لئے آپ کے پاس کیا منصوبہ ہے ؟ کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے کیا منصوبہ بندی کی ہے ؟ کسی نے یہ سوال نہیں اٹھایا کہ نادرا اور پاسپورٹ کے محکموں میں موجود خامیوں کو درست کرنے کا کوئی نسخہ کیمیا آپ کے پاس ہے ؟کسی نے یہ سوال پوچھنے کی زحمت نہیں کہ رینجرز اور ایف سی جیسے نیم فوجی دستوں کے بارے میں لائحہ عمل کیا ہے ؟ نہ کوئی ان سے ان کی بنیادی ذمہ داریوں کے بارے میں سوال کرتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی بنیادوں ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھانے کو قوم کے سامنے رکھتا ہے اس لئے کہ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان کا انتخاب فرائض منصبی کی ادائیگی کے لئے نہیں بلکہ فرائض فرمائشی کی ادائیگی کے لئے ہوا ہے ۔ قوم کے سامنے وہ کارکردگی اس لئے نہیں رکھتے کہ ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ قوم اچھی طرح سے جانتی ہے کہ ان کی نامزدگی کس مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہوئی ہے ۔ حالیہ دنوں میں ایک اور اہم تعیناتی اعظم سواتی کو وفاقی وزارت ریلوے کا قلمدان سونپنا ہے ۔ جس روز انھوں نے یہ منصب سنبھال لیااگلے ہی دن موصوف نے اعلان کر دیا کہ ’’ ساری ریلوے نہیں چلاسکتے کچھ حصے ٹھیکے پر نہ دئیے تو سسک سسک کر سٹیل مل کی طرح بند کرنا پڑے گا ‘‘ ۔ ساتھ ہی اعلان کردیا کہ ’’ جب اپوزیشن کے استعفے آئے تو دیگیں چڑھا ئوں گا ‘‘ ۔ جو وزیر پہلے ہی دن اپنے محکمے کے بارے میں اندازہ لگا سکتا ہو اور اسی ہی دن قوم کو خوش خبری بھی سنادیں کہ حکومت اس قابل نہیں کہ اس اہم محکمے کو چلا سکے اس لئے ٹھیکے پر دیناپڑے گا ۔ مطلب یہ ہوا کہ ان کو یہ وزارت اس لئے نہیں دی گئی ہے کہ وہ اس میں کوئی بہتری لائے ۔ اس کو چلا کر دکھائے بلکہ ان کی تعیناتی اس مقصد کے تحت ہو ئی ہے کہ انھوں نے ریلوے کو ٹھیکے پر دینا ہے ۔ اب باقی جو ڈھائی بر س رہ گئے ہیں اس میں وفاقی وزیر ،اعظم سواتی ،وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ کو یہی بتاتے رہیں گے کہ انھوں نے کو ریلوے کو ٹھیکے پر دینے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ اگر وہ وزیر اعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ کو ریلوے کو ٹھیکے پر دینے کے قدامات سے مطمئن نہ کر سکے تو پھروہ وزیر نہیںرہیں گے ۔ان کو ہٹا کر کسی اور کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے گی ۔ یہ ہے وہ غیر سنجید ہ رویے جس کی وجہ سے ملک کے ادارے ماضی میں بھی اور موجودہ دور میںبھی برباد ہوتے جارہے ہیں ۔وزیروں کا تعین اس لئے نہیں کیا جارہا کہ وہ متعلقہ محکموں میںبہتری لائے بلکہ ان کا تقرر اس لئے کیا جاتا ہے کہ حزب اختلاف کو کیسے قابو کرنا ہے اور محکموں کو ٹھیکوں پر کس طرح دینا ہے ۔ حکومت اور ان کے صلا ح کاروں کو چاہئے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ۔ شیخ رشید اور اعظم سواتی جیسے لوگ کسی کے نہیں ہوسکتے ۔ شیخ رشید نے ضیاء الحق کا ساتھ دیا ۔ نوازشریف کے ساتھ رہے ۔ پرویز مشرف کی خدمت کی ۔لیکن سوچنے کا مقام ہے کہ آج پرویز مشرف اور نواز شریف کہاں اور کس حال میں ہیں ؟ جبکہ شیخ رشید اسی طرح اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں ۔اعظم سواتی جیسے لوگوں نے پہلے مشرف کاساتھ دیا ۔پھر مولانا فضل الرحمان کے کشتی میں سوار ہوئے ۔ یوسف رضا گیلا نی کے کابینہ میں وزیر رہے ۔آج آصف زرداری اور یوسف رضا گیلانی کہاں ہیں ؟ مولانا فضل الرحمان کس کرب سے گزر رہے ہیں جبکہ اعظم سواتی اور ان کے قبیل کے دوسرے لوگ وزارتو ں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں ۔ ٭٭٭٭٭