وزیراعظم شہباز شریف نے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے کہ پاکستان میں اس سال گندم کی پیداوار گزشتہ دس سال کے ریکارڈ سے زیادہ پونے 2 کروڑ 75 لاکھ میٹرک ٹن ہوئی ہے۔ وزیر اعظم کو اس کی تفصیل بھی بتانی چاہئے کہ کس علاقے سے کتنی پیداوار ہوئی ہے؟ وزیر اعظم نے خدشات اور پیش گوئیوں کے باوجود بمپر کراپ آنے پر کاشتکاروں اور قوم کو مبارک باد دی ہے۔ مبارکباد اپنی جگہ مگر یہ بمپر کراپ کرپشن کی نذر نہیں ہونی چاہئے اور بمپر کراپ پیدا کرنے والوں کو اس کا حق اور معاوضہ بھی ملنا چاہئے۔ سرائیکی وسیب جو سب سے زیادہ گندم پیدا کرتا ہے اس کے لوگوں کے پیٹ آج بھی خالی ہیں ، دو وقت کی روٹی کے لئے وسیب کے کروڑوں لوگ شدید پریشان ہیں ۔ حکومت نے گزشتہ سال 18سو روپے فی من گندم کی قیمت مقرر کی مگر جونہی کاشتکار سے گندم خرید کر لی گئی تو گندم اور آٹے کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا اور پانچ سے چھ ہزار روپے فی من آٹا فروخت ہوتا رہا۔ اس مرتبہ چار ہزار روپے فی من قیمت مقرر کی گئی ہے مگر وسیب کے کاشتکار کو پورا معاوضہ نہیں مل رہا، خریدار اور بیوپاری کنترا بھی لگا رہے ہیں ، حکومت اس قیمت کو امدادی قیمت کا نام دیتی ہے ، امدادی قیمت ہم تب کہہ سکتے ہیں کہ جب حکومت چار ہزار روپے فی من گندم خرید کر کے دو ہزار روپے فی من فروخت کرے۔ اگر یہی گندم چھ سے آٹھ ہزار روپے فی من چلی گئی تو اس سے بڑھ کر غریب عوام کے ساتھ ظلم کوئی نہیں ہوگا۔ وسیب میں غربت اور تنگدستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکپتن کے گائوں بڑی راکھ کی رہائشی مہنگائی کی ستائی خاتون ساجدہ بی بی جو کہ پانچ بچوں کی ماں ہے واپڈا کے ہائی وولٹیج لائن کے پول پر چڑھ گئی، خاتون کا کہنا تھا کہ میرے بچے کئی روز سے بھوکے ہیں ، گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ، دس من گندم دیں تو نیچے آئوں گی تاکہ اپنے بچوں کو کھانا کھلا سکوں ۔ یہ صرف ایک واقعہ نہیں بہت سے ایسے خاندان ہیں جو سفید پوشی کا بھرم رکھنے کیلئے کسی کو اپنے حالات بتانے کی ہمت نہیں کرپاتے۔ انسانی زندگی میں اناج کی بہت اہمیت ہے، پاکستان میں خوراک کے معاملے میں کرپشن کے قصے الگ ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اناج کو صحیح طریقے سے محفوظ نہیں کیا جاتا ۔ سرائیکی وسیب میں آج بھی گندم کھلے گوداموں میں رکھی جاتی ہے ، بارشوں کے سیزن میں گندم خراب ہوتی رہتی ہے، حکومت نے مفت آٹا سکیم کے تحت جو آٹا غریب عوام کو دیا وہ ایسا تھا کہ اس کو انسان تو کیا جانور بھی نہیں کھاتے تھے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری اہلکاروں نے کرپشن کرتے ہوئے چھ سے سات سو روپے فی تھیلا کے حساب سے آٹا مڈل مین کو فروخت کیا جنہوں نے پچاس یا سو روپے کے منافع پر مویشی پالنے والوں کو فروخت کیا اور پھر یہ شکایات سامنے آئیں کہ وہ آٹا جانور کھانے کو بھی تیار نہیں تھے۔ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کے مصداق سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے مفت آٹے کی تقسیم کے پروگرام میں کرپشن سے متعلق اپنے الزامات کو دوگنا کرتے ہوئے کہا ہے کہ 20 ارب روپے تک کی خرد برد کا ان کا ابتدائی تخمینہ درحقیقت کم ہے۔ گندم کا جب سیزن آتا ہے تو حکومت باردانہ مہیا کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے اور وسیب کی پیداوار اتنی زیادہ ہے کہ گندم کے سرکاری گوداموں میں جگہ کم پڑ جاتی ہے۔ کاشتکاروں کی محنت کو بچانے کیلئے حکومت کو اقدامات کرنے چاہئیں کہ خوراک کے ضائع ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں ہر سال 4 ارب ڈالر کی خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ حکومت کے اپنے ادارے وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات کے مطابق پاکستان شدید غذائی قلت کا شکار ہے مگر پاکستان میں سالانہ ملکی پیداوار کی تقریباً 26 فیصد خوراک ضائع ہوتی ہے، ملک میں خوراک کا سالانہ ضیاع 19.6 ملین ٹن ہے۔ شکل، سائز اور رنگ کے معیار پرپورا نہ اترنے والی تازہ خوراک بھی ضائع کردی جاتی ہے۔فیکٹریوں میں چھانٹی کے عمل کے دوران خوراک اکثر سپلائی کے سلسلے سے نکال دی جاتی ہے۔ غذائی اشیاء تاریخ استعمال قریب یا گزر جانے پر دکاندار یا صارفین بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ اناج کی بربادی کا ذکر آیا ہے تو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 2010ء اور گزشتہ سال کے سیلاب میں اربوں روپے کی گندم پانی کی نذر ہوئی بعد ازاں ضائع شدہ گندم کے تعفن کو ختم کرانے کے لئے حکومت کی طرف سے ٹینڈر دئیے گئے اور کروڑوں روپے الگ خرچ ہوئے۔ اگر بروقت اقدام کر لئے جاتے اور یہ گندم غریبوں کو دے دی جاتی تو ملک اور قوم کا کتنا فائدہ تھا۔ حکومت کے ناقص حکمت عملیوں کی وجہ سے غربت بڑھ رہی ہے یہ حقیقت ہے کہ کمسن بچوں سے جبری مشقت لینے کے بڑھتے واقعات اور غربت کی شرح میں کمی کیلئے حکومت پنجاب نے چائلڈ لیبر ایکٹ کا نفاذ کرتے ہوئے صوبے کی تمام ضلعی انتظامیہ کو کمسن بچوں سے کام لینے والوں کے خلاف کارروائی کرنے اور کمسن بچوں کو مفت تعلیمی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کا حکم دیا لیکن حکومت کے تمام تر دعوئوں کے باوجود اینٹوں کے بھٹوں ، ہوٹلوں اور دیگر کاروباری مراکز اورفیکٹریوں سے چائلڈ لیبر کا خاتمہ یقینی نہیں بنایا جا سکا۔ کمسن بچے تمام تر خواہشات چھوڑ کر مزدوری کر رہے ہیں۔ روزنامہ 92 نیوز رحیم یار خان کے نمائندے کی خبر کے مطابق درجنوں کیمل جوکی بچے 16 سال سے فنڈز کی فراہمی سے محروم ہیں، مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے حکام فنڈز کی فراہمی کیلئے اقدامات کریں۔ وہ کیسے حکمران ہیں جو اس طرح کے کھیل کی اجازت دیتے ہیں؟ اور وہ کیسے ماں باپ ہیں جو پیسے کی لالچ میں اپنے بچوں کو موت کے کھیل کے حوالے کر دیتے ہیں؟ چائلڈ لیبر کا محکمہ ایسے کھیل کو ختم کرے۔