بر صغیر زمین پر بسایا گیا قدرت کا ایک انمول شاہکار ہے ۔ بلکہ بعض مستند روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ کے حکم سے ز مین پر بھیجا گیا تو حضرت آدم علیہ السلام کو سب سے پہلے سر زمین ہند سری لنکا میں اُترا گیا تھا ۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور اماں حوا علیہ السلام میں جدائی پیدا کر دی تھی تو حضرت حوا کو جدہ سعودی عرب کی سر زمین پر اترا گیا تھا ۔دونوں ایک طویل عرصہ تک ا یک دوسرے کی جدائی میں روتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے توبہ طلب کرتے رہے پھر ایک طویل عرصہ کے بعد دونوں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اکٹھے ہوئے سری لنکا میں آج تک حضرت آدم علیہ السلام کے پاؤں کا نشان بھی باقی ہے جس کی زیارت کے لیے لوگ بڑی تعداد میں سر ی لنکا بھی جاتے ہیں ۔ برصغیر کی انگریزوں سے آزادی کے بعد ہمارے حصے میں پاکستان کی صورت میں ایک خوب صورت مملکت خداد اد آئی پنجاب دریاؤں کی دھرتی اور پوٹھو ہار کی سر خ زمین اور پہاڑ بھی ہمارے حصے میں آئے ۔تو دوسری طرف صوبہ کے پی کے (سرحد) کی درختوں پہاڑوں اور خوب صورت چشموں اور مختلف پھلوں کی سر زمین بھی آئی اسی طرح سے بلوچستان کے فلک بوس پہاڑوں میں چھپی قدرت کی انتہائی قیمتی معدنیات بھی آئیں جبکہ سندھ کی ہزاروں سالہ قدیم تہذیب بھی ہمارے حصے میں آئی ۔پنجاب جو پانچ دریاؤں کی سر زمین ہے اور جس میں لاہور جیسا علم و ادب اور قدیم تہذیب کا خوب صورت شہر بھی پایا جاتا ہے ۔ لاہور کو پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے خطہ لاہور راوی کے کنارے آباد شہر کبھی ہندو تہذیب کا بھی مرکز رہ چکا ہے لیکن محمود غزنوی نے جب اِس کو فتح کیا تو یہ مسلمانوں کے ہاتھوں آگیا ۔ محمود غزنوی ؒ نے ملک ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا جن کی قبر بھی لاہور میں ہے ۔ملک ایاز نے لاہور کے بارہ دروازوں کو از سر نو تعمیر کرایا اور اِس کو مسلمانوں کا مرکز بنا دیا بعد میں مغلیوں کے دور حکومت میں لاہور کو مزید خوب صورت بنایا گیا ۔قلعہ لاہور کو جلال الدین محمد اکبر نے از سر نو تعمیر کرایا جبکہ جہانگیر کے دور میں بھی لاہور پر بڑی محنت کی گئی کیونکہ نور الدین محمد جہانگیر اور اُن کی چہیتی ملکہ نور جہاں کو لاہور بہت ہی پسند تھا اس لیے کہ مرنے کے بعد بھی یہ دونوں لاہور ہی میں آسودہ خاک ہوئے ۔مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں راوی پار شاہدرہ کے مقام پر موجود ہیں۔ یہ دونوں تاریخی عمارتیں ہیں۔ اورنگزیب نے تاریخی با دشاہی مسجد بنوائی الغرض لاہور ہمیشہ مرکز ہی رہا ۔بعد میں انگریزوں نے بھی لاہور میں تاریخی عمارتیں بنوائی تھیں جو آج تک موجود ہیں لیکن 1947ء کے بعد جب لاہور ہمارے حصے میں آیا تو ہم نے اس خوب صورت شہر کو آلودہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور آج 75 برس بعد یہ دنیا میں آلودگی کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہے ۔ افسوس کہ ہمارے نااہل حکمرانوں نے اِس کا حلیہ تک بگاڑدیا ہے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے تاریخ میں امر ہونے کے لیے اورنج ٹرین اور میٹر و بس منصوبہ بنا کر جہاں پر پورے ملک کو اربوں ڈالر کا مقروض کیا وہاں پر لاہور کے حسن کو بھی تباہ وبرباد کر دیا ہے ۔ آج لاہور میں ٹریفک کے بے پناہ رش کی وجہ بھی ہماری اپنی پید اکردہ ہے آخر ایک لاہور پر اتنا بوجھ ڈالنے کی بجائے ہم ایک دو اور شہر کیوں نہیں بسا لیتے کیونکہ سارا مسئلہ لاہور میں روز بروز بڑھتی آبادی کا ہے۔ لاہور کے بعد سب سے قدیم شہر ملتان ہے بلکہ ملتان تو کبھی صوبہ تھا اور لاہور اِس کا ایک مضافاتی شہر تھا جس کا ذکر حضرت علی بن عثمان المعروف داتا گنج بخش ؒ نے اپنی کتاب میں ذکر بھی کیا ہے۔ ملتان اولیاء اللہ کی سر زمین ہے۔ملتان بھی محمد بن قاسم ؒ کے فتح کرنے سے پہلے ہندوؤں کا مرکز تھا اور یہاں پر ہندوؤں کا ایک بہت ہی قدیم مندر بھی تھا ۔ یوسف رضا گیلانی جب وزیر اعظم تھے تو اُنہوں نے ملتان کی تعمیر و ترقی کے لیے بڑا کام کرایا یہ چناب اور راوی کے ساتھ آباد ہے لیکن اب راوی اِس سے بہت دور ہو چکا جبکہ چناب اِس کے ساتھ بہہ رہا ہے ملتان بھی انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے آلود ہ ہو چکا ہے۔ آبادی ہم سے کنٹرول نہیں ہو رہی جس کا اثر شہروں پر پڑ رہا ہے ۔ملتان شہر کی آبادی اِس وقت پندرہ لاکھ سے تجاویز کر چکی ہے لیکن اِس پر کوئی بھی توجہ نہیں دے رہا اس طرح کی صورتحال فیصل آباد ، سیالکوٹ ، گوجر انولہ ، راولپنڈی اور ڈیرہ غازی خان کی ہے ۔ ڈیرہ غازی خان جو جنوبی پنجاب کا بہت ہی اہم ضلع ہے ۔ جبکہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے سنگم میں واقع ہے لیکن افسوس کہ ڈیرہ غازی خان اِس وقت پنجاب کے آلودہ اور گندگی سے بھرے شہروں میں شمار ہوتا ہے کبھی ہی ’’ڈیرا پھلا ں دا سہرا ‘‘ کے نام سے مشہور تھا اور آج گندگی کا ڈھیر نظر آتا ہے اور بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی لکھیں کہ اِس شہر سے صدر مملکت سے لے کر گورنر اور وزیر اعلیٰ منتخب ہوتے رہے لیکن اِس کی تقدیر نہ بدلی۔ سردار عثمان بزدار حالیہ سال میں مارچ تک وزیر اعلیٰ پنجاب تھے جنہوں نے اربوں روپے کے فنڈز تونسہ اور بارتھی پر تو خرچ کیے لیکن ڈیرہ غازی خان شہر کا جو سب سے بڑا مسئلہ سیوریج کا تھا اُسے حل نہ کیا۔ آج سیوریج نے پورے شہر کو تباہ کیا ہوا ہے جبکہ شہر میں ہر طرف گندگی کا ڈھیر نظر آتے ہیں جگہ جگہ سڑکیں گڑھوں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ پبلک ہیلتھ کی نا قص منصوبہ بندی سے شہر دلدل کے اوپر کھڑا ہے جبکہ یہاں کی نا اہل انتظامی مختلف ٹکڑوں کی صورت میں سیوریج لائن بحال کر کے شہر میں سیوریج چلا رہی ہے۔ دوسری طرف ٹریفک کے بے آہنگم صورتحال اور بے انتہا رش کی وجہ سے شہری مشکلات کا شکا رہیں ۔لیکن سب اِس کی تباہی پر خاموش ہیں جسے یہ شہر نہ ہو کوئی قبرستان ہو ۔