ریلوے سے ریٹائرڈ فورمین محمد طاہر کا خاندان موہنی روڈ لاہور میں رہتا ہے۔ ان کی اکلوتی اولاد اطہر طاہر شادی کے سترہ سال بعد منتوں مرادوں سے پیدا ہوا۔ سولہ سالہ نوجوان نے گیارہویں جماعت کا امتحان دیا تو ماں باپ نہال تھے۔ اطہر کی پیشاب کی نالی میں پیدائشی طور پر کچھ رکاوٹ تھی۔ ڈاکٹروں نے وقفہ وقفہ سے دو آپریشن کرکے اسے دُور کردیا۔ دس دن پہلے اسے پیشاب میں تکلیف محسوس ہوئی‘پھر خون آنے لگا۔ ماں باپ اسے گورنمنٹ ہسپتال سید مٹھا اور گورنمنٹ ہسپتال میاں منشی لے گئے۔ دونوں جگہ ڈاکٹروں نے کہا کہ اسے میو ہسپتال لے جائیں۔ مریض کو قے بھی ہونے لگی۔ کھانا پینا نہ ہونے کے برابر رہ گیا۔ میو ہسپتال میں ٹیسٹ ہوئے۔ ان کے رزلٹ دو تین دن بعد ملے۔ ڈاکٹروں نے علاج شروع نہیں کیا۔ گزشتہ جمعرات کو ماں باپ اسے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لے گئے۔ نیفرالوجسٹ (گردوں کا ماہر ڈاکٹر) نے کہا اسکے دونوں گردے ختم ہوچکے، فورأ ڈائلسز ہوگا۔ یورالوجسٹ نے بھی یہی تجویز کیا۔ نجی ہسپتال میں ایمرجنسی میں ڈایلسز کا خرچ ایک لاکھ سے اوپر تھا۔ والدین کی سکت سے باہر۔ اس امید پر کہ اگلے دن میو ہسپتال سے ڈائلسز کروالیں گے وہ اسے گھر لے گئے۔ ایک گھنٹہ بعد نوجوان لڑکا بے ہوش ہوا۔ ماں نے اپنی گود سے چمٹایا۔ میو ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ تو دم توڑ چکا۔ ماں باپ جیتے جی مر گئے۔ ان کی آہ و بکا سن کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ ماں باپ کبھی اپنے لاڈلے کے کپڑے دیکھ کر روتے ہیں کبھی اس کے کھیلنے کا سامان۔ وہ سمجھتے تھے کہ ان کے بیٹے کو انفیکشن ہوگیا ہے جو علاج معالجہ سے ٹھیک ہوجائے گا۔ انکے وہم و گمان میں نہ تھا کہ اسکے گردے فیل ہورہے تھے۔ نہ سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹروں نے انہیں الرٹ کیا۔ نوجوان اطہر طاہر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ خداوند کریم اسکے ماں باپ کو صبر جمیل عطا کرے لیکن اسکی موت کئی سوالات کو جنم دیتی ہے۔ جب اسے پہلی بار سرکاری ہسپتال لے گئے تو انہوں نے اس کی سابقہ رپورٹس اور طبی ہسٹری دیکھ کر ماں باپ کو اس خطرہ سے آگاہ کیوں نہیں کیا کہ اسکے گردوں کو خطرہ ہے‘ اسے فورا کسی بڑے ہسپتال میں داخل کرواکر علاج شروع کروائیں؟ جب لڑکا میو ہسپتال پہنچا تو ڈاکٹروں نے ایمرجنسی ڈیکلئیر کیوں نہ کی؟ کسی سینئر ڈاکٹر نے اسکا چیک اپ کیوں نہ کیا؟ اسے بلاتاخیر ہسپتال میں داخل کرکے علاج شروع کیوں نہ کیا؟ جب اطہر کو پرائیویٹ ہسپتال لیجایا گیا تب ہی اسے ایک سینئر ڈاکٹر نے توجہ سے دیکھا اور ماں باپ کو صحیح صورتحال سے آگاہ کیا۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ لڑکے کے گردے پوری طرح متاثر اور ناکارہ ہوچکے تھے۔ دس روز تک کھانا پینا کم ہونے اور مسلسل قے کے باعث وہ کمزور ہوچکا تھا۔ اسکے جسم میں خون کی کمی ہوگئی تھی۔ نیفرالوجسٹ نے ماں باپ کو بتادیا کہ ڈائیلسز میں رسک فیکٹر بھی ہے۔ امکان ہے کہ لڑکے کا جسم ڈائیلسز برداشت نہ کرسکے۔ اگر مریض کا علاج دس روز پہلے شروع ہوجاتا تو ہوسکتا ہے اسکے گردے مکمل فیل نہ ہوتے۔ ڈائیلسز بھی آسانی سے ہوجاتا کہ اسوقت تک وہ کمزور نہ ہوا تھا۔ نجی ہسپتال میں جن دو سینئر ڈاکٹروں نے مریض کو دیکھا وہ دونوں دو مختلف سرکاری ہسپتالوں میں اعلی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان جیسے سینئر ڈاکٹر کسی نجی ہسپتال میں آکر مریض کو دیکھ سکتے ہیں لیکن جن ہسپتالوں میںکام کرنے کی تنخواہ پاتے ہیں‘ ریٹائرمنٹ کے بعد تا حیات پینشن پائیں گے وہاں وہ مریض کے قریب بھی نہیں پھٹکتے۔ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر سرکاری ہسپتالوں میں اپنی ڈیوٹی پر رہنا پسند نہیں کرتے۔ ایک سینئر ڈاکٹر دن میں درجنوں مریض پرائویٹ طور پر دیکھتا ہے۔آجکل لاہور میں پرائویٹ مریض دیکھنے کے فیس ڈھائی ہزار روپے ہے۔ آپریشن کرنے کی فیس کئی گنا زیادہ۔ یوں ہر ماہ ایک ڈاکٹر سرکاری تنخواہ کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے نجی پریکٹس سے کماتا ہے۔ اگر ڈاکٹر سمجھتے ہیں کہ ان کی سرکاری تنخواہ کم ہے تو وہ ملازمت سے استعفیٰ دیکر صرف نجی پریکٹس کریں۔ نجی پریکٹس کے بارے میں کوئی قانون ہے بھی تو اس پر عمل نہیں ہوتا۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملہ کی اکثریت مریضوں سے غفلت برتتے ہیں۔ کم آمدن والے لوگ وہاں جانے پر مجبور ہیں کہ کوئی متبادل نہیں۔ مجھے خود اپنے والدین کی بیماری کے دوران اسکے تلخ تجربے ہوچکے ہیں۔ جو ذلت و خواری مجھے لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں برداشت کرنی پڑی وہ ساری عمر میرے دل و دماغ پر نقش رہے گی۔ سرکاری ہسپتال عوام کے دیے ہوئے ٹیکسوں سے چلتے ہیں لیکن انہیں خیراتی ہسپتال سمجھا جاتا ہے جو بالکل غلط بات ہے۔ غریب عوام اپنے استعمال کی ہر چیز پر حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہی محاصل سے ہسپتالوں کی تعمیر ہوتی ہے اور انکے اخراجات کیے جاتے ہیں۔ یہاں پر مناسب علاج معالجہ کی سہولت ملنا عوام کا حق ہے۔ اس میں خیرات کہاں سے آگئی؟ پاکستان کی چاروں صوبائی حکومتیں ہر سال سینکڑوں ارب روپے ہسپتالوں اور ڈاکٹروں پر خرچ کرتی ہیں۔ بعض فرض شناس‘ ہمدرد ڈاکٹر بھی ہیں لیکن سرکاری ڈاکٹروں کی اکثریت غریب مریضوں اور انکے لواحقین کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ڈاکٹر ان سے ڈھنگ سے بات کرنا پسند نہیں کرتے۔علاج میں غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہسپتال میں اپنا فرض سمجھ کرکام نہیں کرتے بلکہ وقت گزاری کرتے ہیں۔ سینئر ڈاکٹر اپنے ڈیوٹی اوقات میںغیرحاظر ہو کر پرائیوٹ مریضوں کو باہر جا کر دیکھتے اور آپریشن کرتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ٹیسٹ کی مشینیں جان بوجھ کر کئی کئی ماہ تک خراب رکھی جاتی ہیں تاکہ نجی ہسپتالوں اور کلینکوں کا کاروبار چل سکے۔ نگرانی کا نظام موجود نہیں یا غیر موثر ہوگیا ہے۔ حکومت سے ڈاکٹروں کی شکائیتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ ہر تھورے عرصے بعد کبھی ڈاکٹر‘ کبھی نرسیں‘ کبھی پیرامیڈیکل ہڑتال کردیتے ہیں۔ سرکاری شعبہ میں لوگ ملازمت صرف تنخواہ لینے کے لئے کرتے ہیں۔ خدمت کرنے کے لیے نہیں۔ فرض شناسی پر لالچ غالب آچکا ہے۔ یہاں ڈاکٹروں کی بے حسی‘ خود غرضی اور غفلت سے روزانہ ہزاروں جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اطہر طاہر جیسی بے شمار کہانیاں ہمارے چاروں طرف بکھری پڑی ہیں۔ ہم معاشی سے زیادہ اخلاقی بحران سے دوچار ہیں۔