وفاقی حکومت نے قومی سلامتی پالیسی کا اعلان کیا ہے اور اسکی دستاویز جاری کی ہے۔ جو دستاویز عوام کے سامنے رکھی گئی ہے یہ مکمل پالیسی نہیں ہے بلکہ اصل پالیسی کی ایک مختصر شکل ہے۔اس پالیسی کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں ملک کی سرحدوں کے دفاع کے ساتھ ساتھ معاشی تحفظ کو مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔پاکستان کی حکومت نے ملک کی علاقائی حدود کے دفاع کو ہمیشہ مقدم رکھا کیونکہ شروع دن سے ملک کو انڈیا ایسے بڑے ہمسایہ دشمن کا سامنا رہا ۔اکثر کہا جاتا ہے کہ پاکستان بنیادی طور پر ایک سکیورٹی ریاست ہے یعنی ایسی ریاست جہاں اہم ترین ترجیح ملک کا دفاع ہے جبکہ معیشت اور انسانی ترقی کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم اس باب میں ایک کوتاہی مشرقی پاکستان میں ہوئی جہاں نہ فضائیہ رکھی گئی اورنہ برّی فوج کو توسیع دی گئی۔ جب انڈیا نے مشرقی پاکستان میں بغاوت کو ہوا دی تو وہاںدفاع کیلیے بیس پچیس ہزار سے زیادہ فوج تعینات نہ تھی۔اس کا خمیازہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ اور عوامل کے ساتھ ساتھ بنگا ل میں ناکافی فوجی صلاحیت نے بھی بنگلہ دیش کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اس سانحہ کے بعد پاکستان کے حکمرانوں نے ملکی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے اہم ترین کام یہ کیا کہ ایٹم بم بنانے کی صلاحیت حاصل کی۔ افغانستان میں سوویت یونین نے فوجیں داخل کیںتو اس موقع کا فائدہ اٹھا کرپاکستان نے اپنے ایٹمی پروگرام کوپایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ اسوقت مغربی سامراج اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ پاکستان پر پابندیاں عائد کرتا۔اسی عرصہ میں پاکستان نے امریکہ سے جدید ترین اسلحہ حاصل کیا۔ انیس سو اسّی کی دہائی میں ایف سولہ طیارے خریدے جن کا توڑ انڈیا نے تیس پینتیس سال بعد رافیل طیارے خرید کر کیا ہے۔ پاکستان کی انڈیا سے کوئی بھی جنگ ہو محاذ پر ہماری افواج نے اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔دو برس پہلے جب انڈیا نے بالاکوٹ پر فضائی حملہ کیا تو اس کے جواب میں ہماری فضائیہ نے دشمن کومنہ توڑ جواب دیتے ہوئے اسکے اندر گھس کر بمباری کی۔ اس کے دو طیارے گرائے اور ایک پائلٹ ابھی نندن کو قیدی بنالیا۔ بالاکوٹ پر حملہ کے فوراً بعد پاکستان نے اپنے دفاع کو مزیدمستحکم بنانے کی خاطر متعدد اقدامات کیے اور اپنی افواج کو جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کیا ہے۔ سب سے پہلے پاکستان نے چین سے فضا سے فضا میں مار کرنے والے پی ایل 10 میزائیل خریدے، جے تھنڈر طیاروں میں نصب کیے۔ تاکہ پاکستان کی حدود میں داخل ہوتے ہی بھارتی طیاروں کو میزائلوں سے نشانہ بنایا جاسکے۔ چونکہ امریکہ نے ہمیں ایف سولہ طیارے دینے سے انکار کردیا تھا ہم نے چین سے جدید ترین جے10 طیارے خریدے ہیں جن میں پی ایل15میزائیل نصب ہیں جو زیادہ دُور تک مار کر سکتے ہیں۔انڈیا نے پاکستانی جنگی طیاروں اور میزائلوں کو نشانہ بنانے کے لیے روس سے ایس 400 میزائل ڈیفنس نظام حاصل کرکے اسے مشرقی پنجاب میں نصب کیا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان نے چین سے ڈیفنس میزائیل ایچ کیو9 حاصل کیا ہے۔ اسی طرح چین اور ترکی سے جدید جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں حاصل کی گئی ہیں۔یہ کریڈٹ موجودہ حکومت اور عسکری قیادت کو جاتا ہے کہ انہوں نے معاشی مسائل اور کورونا وبا کے باوجود ملکی دفاع کو ہر اعتبار سے مستحکم بنایا ہے۔ عسکری اعتبار سے پاکستان کے پاس مکمل استعداد موجود ہے لیکن مسئلہ پاکستان کی اندرونی سلامتی اور استحکام کا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملکی معیشت کمزور ہے۔ بیرونی قرضوں کے باوجود خسارے پورے نہیں ہوپارہے۔ زرمبادلہ کا بحران رہتا ہے۔ بجٹ خسارے حد سے بڑھ گئے ہیں۔ اگر معاشی بحران پر چند برسوںمیں قابو نہیںپاسکے تو اسکا منفی اثر ملکی دفاع اور فوج پر بھی پڑے گا۔ مالی وسائل نہیں ہوں گے تو جدید اسلحہ بنانے اور خریدنے کی صلاحیت کم ہوتی جائے گی۔ سوویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ اس کے پاس بہترین فوجی صلاحیت تھی لیکن معاشی کمزوری کے باعث وہ بکھر گیا۔ امریکہ کی پاکستان میں دلچسپی تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب امریکی امداد ملنے کے دن گزر گئے ہیں۔ پاکستان کومعاشی طور پر خود کفیل ہونا پڑے گا۔ قومی سلامتی پالیسی کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس میں معاشی تحفظ و سلامتی کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔جیواکنامکس کی بات کی گئی ہے یعنی ایسی خارجہ پالیسی جس میں معاشی ترقی اور علاقائی ملکوں کے ساتھ مل کر معیشت اور تجارت کے فروغ کے لیے کام کیا جائے۔پاکستان کا محل وقوع ایسا ہے کہ وہ دنیا کے بڑے ممالک کے درمیان تجارت کی راہداری بن سکتا ہے۔ ایک طرف چین ہے۔ دوسری طرف انڈیا اور تیسری طرف ایران اور مغربی ایشیا کے ممالک۔ اگر پاکستان میں استحکام اور امن و امان ہو تو ہمارے لوگ علاقائی تجارت کے ذریعے دولت کما سکتے ہیں۔ ہم نے بہترین سڑکوں کاجال بچھا لیا ہے۔ قومی سلامتی پالیسی میں بیان کیے گئے جیواکنامکس کی حکمت عملی کا تقاضا ہے کہ ہم انڈیا سے تعلقات کو بگڑنے نہ دیں۔کشمیر پر ہمارا اصولی موقف قائم رہے لیکن دلی کے حکمرانوں سے ایسے تعلقاتِ کار ہونے چاہئیں جیسے چین نے انڈیا اور تائیوان سے بنائے ہوئے ہیں۔ ان دونوں ملکوںکے ساتھ چین کے شدید اختلافات اور علاقائی تنازعات ہیں لیکن ساتھ ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری بھی چل رہی ہے۔ نریندر مودی کی ہندو انتہا پسند حکومت تعلقات بہتر ہونے میںرکاوٹ ہے ۔ لیکن دونوں ملکوں کے کچھ مشترکہ دوست ممالک جیسے رُوس‘ متحدہ عرب امارات وغیرہ اس پوزیشن میںہے کہ وہ سفارتی دباؤ ڈال کر پاکستان اور بھارت کو با ت چیت کی میز پر لاسکتے ہیں۔ معاشی ترقی کا اہم پہلو یہ ہے کہ ملک میں صنعتی ترقی کو آگے بڑھایا جائے۔یہ ایسا کام ہے جس میں ہم باقی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ سی پیک کا دوسرا مرحلہ شروع ہونے والا ہے جس میں صنعتکاری کو ترجیح دی گئی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز ہری پور میں ٹیکنالوجی منصوبہ کا افتتاح کرتے ہوئے فنی تعلیم کو فروغ دینے کی بات کی۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے ۔ ملک میں دسویںجماعت تک کی تعلیم اور فنی تعلیم کو فروغ دیا جائے تو روزگار اور معاشی ترقی کی راہیں روشن ہوسکتی ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ملک کے وزیراعظم کو اس بات کا احساس ہے ۔ اب معاملہ عمل درآمد کا ہے۔اگر موجودہ حکومت وقتی سیاسی فائدوں کی فکر نہ کرے اور قوم کے طویل مدتی مفاد میں صنعت کاری اور تعلیم کے شعبوں میںبھاری سرمایہ کاری کرے تو اگلے دس پندرہ برسوں میں ملک کا معاشی بحران خاصی حد تک دُور ہوسکتا ہے۔