بچپن میں ایک نظم پڑھی تھی ، نندیا پور۔اس کے سحرسے آج تک نہیں نکل پایا۔ندی سی اک نکلتی ہے جہاں سے اور جنگل میں ہے بڑھیا کا گھر۔ یہ ندی اور بڑھیا کے اس گھر کے تصور میں بچپن بیت گیا۔ پھر ایک روز مارگلہ کی ندی سے گزر کر پگڈنڈی پر چلتے چلتے سچ مچ میں ایک بڑھیا کا گھر آ گیا۔ وادی میں پھیلے جنگل کے اس اکیلے گھر میںمس مصرو رہتی تھی۔مس مصرو کا انتقال ہوا،تو سی ڈی اہلکاروں نے اس کی جھونپڑی کو مسمار کر دیا۔ حالانکہ تھوڑی سی عقل اور ذوق ہوتا تو جنگل کی اس لوک داستاں پر کہانیاں لکھی جاتیں اور اس کٹیا اور بوہڑ کے درخت پر مچان کے ساتھ لٹکی بندوق پر ڈاکومنٹریز بنائی جاتیں اوروادی کا یہ خاموش گوشہ دنیا بھر کے سیاحوں کا مرکز بن جاتا۔ مس مصرو کی جھونپڑی میں پرانے مٹکوں ، مٹی کی ہانڈیوں ، مرتبانوں اور ڈبوں میں گھاس پھونس ، جڑی بوٹیا ں اور درختوں اور جھاڑیوں پر اگنے والے چھوٹے چھوٹے پھول پڑے ہوتے تھے۔ بوہڑ کے ساتھ شمال کی سمت میں کدھولی پر ایک چادر میں انہیں دھوپ لگائی جاتی اور پھر کوٹ کر جمع کر لیے جاتے۔جاڑا ہو یا بہار کچھ نہ کچھ دھوپ میں سوکھ ہی رہا ہوتا ۔یہ ایک مسلسل عمل تھا۔مس مصرو سارا سال جنگل میں گھومتی یہ جھاڑ جھنکار اکٹھا کرتی رہتی اور پھر مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے انہیں سنبھال کر مرتبانوں ، ہانڈیوں اور ڈبوں میں رکھتی جاتی۔ ہم ہنسا کرتے کہ اماں تم بڑی کنجوس ہو ادھر اسلام آباد میں کسی میڈیکل سٹور سے دوائی لینے کی بجائے سارا سال جنگل چھانتی پھرتی ہو۔لیکن مس مصرو کا خیال تھا کہ قدرت نے جنگل کی ان بوٹیوں میں بڑی شفاء رکھی ہے۔ زمانہ طالب علمی میں ہمارے لیے ان بوٹیوں سے علاج میں کوئی رغبت نہیں تھی۔البتہ کالے مرتبان میں جو بوٹی کوٹ کے رکھی ہوتی تھی اس میں ہماری بہت دلچسپی ہوتی تھی۔ مس مصرو اسے ’’ سپ نی بوٹی‘‘ یعنی سانپ کی بوٹی کہا کرتی تھیں۔ معلوم نہیں یہ کون سی جھاڑی تھی اور اس کا کیا نام تھا لیکن ’’ سپ نی بوٹی‘‘ کے بارے میں مس مصرو کا خیال تھا کہ مارگلہ کے جنگل میں کوئی سا بھی سانپ کسی کو کاٹ لے تو یہ بوٹی اس کا علاج ہے۔چونکہ مارگلہ میں سانپ بہت ہوتے ہیں اس لیے جب بھی ہم مس مصرو کے پاس جاتے ، احتیاط کے طور پر ’’ سپ نی بوٹی‘‘ کا کوٹا ہوا سفوف ضرور لے کر آتے۔ مس مصرو کا کہنا تھا کہ ہر موسم کی اپنی بوٹیاں ، اپنی گھاس اور اپنے پھول ہوتے ہیں۔ ہر جڑی بوٹی اگر اپنے درست وقت پر نہ جمع کی جاتی تو پھر اس کا ملنا مشکل ہوتا ۔ ان جڑی بوٹیوں میں سے ہم نے صرف ایک دو قہوے ہی پی کر دیکھے۔ اب یاد نہیں کون سے تھے لیکن کڑوا سا ذائقہ تھا اور تھکاوٹ دور ہو جاتی تھی اور واپسی پر سانس نہیں پھولتا تھا۔اتنا البتہ یاد ہے کہ جاڑے کا قہوہ اور ہوتا تھا اور گرمیوں کا اور۔ ایک قہوہ ساون کے موسموں کے لیے ہوتا تھا لیکن وہ اتنا شدید کڑوا ہوتا تھا کہ ساتھ ڈھیر سارا گڑ نہ ہو تو دو گھونٹ لینا مشکل ہو جاتا تھا۔ مارگلہ کے دامن میں اگنے والی ان جڑی بوٹیوں اور پودوں کی صدیوں پر محیط تاریخ ہے۔یہ ایک طبی ورثہ ہے جسے حیرت ناک بے اعتنائی سے ضائع کیا جا رہا ہے۔ ابھی چین میں مانسہرہ کے باغات کی چائے کو دنیا کی بہترین چائے قرار دیا گیا ہے ۔کیا عجب کہ مارگلہ کے اس طبی ورثے پر کچھ کام کیا جائے تو اس کے حیرت انگیز فوائد بھی سامنے آ جائیں جو مروجہ طب میں بھی معاون ثابت ہوں۔لیکن ہمارے ہاں کسی کو پرواہ نہیں۔ نیپال کے( ICIMOD) یعنی International Integrated Mountains Organization for Development کی فنڈنگ سے 90 کی دہائی کے اوائل میں مارگلہ کی ان جڑی بوٹیوں پر ایک تحقیق ہوئی تھی ۔یہ تحقیق قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف بائیولاجیکل سائنس نے کی تھی۔ابرار شنواری اور میر عجب خان نے اس پر ایک مقالہ بھی لکھا تھا۔ لیکن یہ بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ یونیورسٹیوں کی سطح پر البتہ کچھ کام ہوا ہے لیکن انتہائی غیر معیاری۔ فاطمہ جناح یونیورسٹی کی ایک تحقیق کا عالم یہ ہے کہ مارگلہ میں موجود بوٹیوں کے مقامی ناموں کے آگے لکھا گیا ہے کہ معلوم نہیں ہے۔راولپنڈی میں بیٹھ کر تحقیق فرمائی جا رہی ہے لیکن جڑی بوٹیوں کا مقامی نام معلوم نہیں ہے۔ کاپی پیسٹ تحقیق کے یہی کمالات ہوتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف بائیولاجیکل سائنس کی تحقیق البتہ براہ راست مشاہدے اور مکالمے کا نتیجہ ہے۔اس میں بتایا گیا کہ مارگلہ میں صدیوں سے کون سے جڑی بوٹی کس بیماری کے لیے استعمال ہوتی آ رہی ہے۔بھنگ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ جانوروں کے پیٹ کے امراض میں استعمال کی جاتی ۔زخموں سے خون رس رہا ہوا تو کھٹی بوٹی کا مرہم استعمال کیا جاتا ۔دھتورے کا جوس خشکی اور گرتے بالوں کے لیے استعمال کیا جاتا ۔شوگر کے مریضوں کو ڈوڈل کے پتے کھلائے جاتے۔کنڈیانی کے پھول خون صاف کرنے کے لیے کھائے جاتے۔کاندری کے پھول اور جنگلی گلاب کے محلول سے آنکھوں کے امراض کا علاج ہوتا۔پیٹ کے امراض میں پوٹھ کانٹ استعمال ہوتی۔سانپ کاٹ لیتا تو ڈھینڈو اور چھلائی کا استعمال کرایا جاتا۔زخم مندمل کرنے کے لیے زرگل کا مرہم لگایا جاتا۔کھانسی اور دمے میں کاہو نام کی جڑی بوٹی کھلائی جاتی۔ ہڈیوں کے امراض اور جوڑوں کے درد میں جندر کھلایا جاتا۔سینے کی انفیکشن اور گلے کے امراض میں جنگلی سرسوں کے بیچ کھلائے جاتے۔بخار میں پھپڑا استعمال کیا جاتا۔یرقان میں زربوٹی کا استعمال ہوتا۔ملیریا میں پلیگڑ کھلائی جاتی۔امباوتی کی جڑوں کو جلد اور ناخنوں کے امراض میں استعمال کیا جاتا تھا۔ بلری کے پتے بھی جلد کے امراض میں استعمال کیے جاتے تھے۔راوڑی کا قہوہ اور محلول زیر کے تریاق کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔گدڑ تمباکو کا استعمال جراثیم کش کے طور پر ہوتا تھا۔اس کا دھواں بھی دیا جاتا تھا اور مرہم میں شامل کر کے بھی لگایا جاتاتھا۔مویشیوں کے امراض میں بھی یہ مفید تصور کیا جاتا تھا۔ قبض کا علاج بنفشہ سے کیا جاتا تھا۔مقامی گھاس کی چار اقسام بطور قہوہ استعمال ہوتی تھیں۔درختوں کی 55 اقسام ایسی تھیں جن کے پتوں اور چھال کا بطور دو ا استعمال ہوتا تھا۔ جھاڑیوں کی 54 اور جڑی بوٹیوں کی 105 اقسام دوا کے طور پر استعمال کی جاتی تھیں۔ ایک پوری تہذیب تھی ، ضائع کر دی گئی۔ گھاس، جھاڑیوں اور جڑی بوٹیوں پر کسی نے کیا توجہ دینی یہاں کے مقامی درخت بھی اہل اقتدار کو اچھے نہیںلگتے اور باہر سے اجنبی درختوں کے بیج پھینک کر یہاں جنگلی توت جنگل اگا دیے گئے جو اس ماحول میں سازگار ہی نہیں۔ سر شام ان سے باقاعدہ دھواں اٹھتا ہے اور بہار رت میں اتنی پولن پھیلتی ہے کہ الرجی سے لوگوں کا یہاں رہنا عذاب ہو جاتا ہے۔ کس کس بات کا رونا رویا جائے۔ جدھر دیکھیں دیوار گریہ کھڑی ملتی ہے۔