اسلام آباد سے روزنامہ 92نیوز کی رپورٹ کے مطابق سابق ن لیگی دور حکومت میں پاکستان تعلیم کے شعبے میں بھی جنوبی ایشیا یا سارک ممالک بھارت‘ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے پیچھے رہ گیا۔ دستیاب سرکاری دستاویزات سے افشا ہوتا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال خواندگی کا تناسب 57فیصد رہا۔ جو انتہائی کم ہے۔2013ء میں پیپلز پارٹی کے دور میں اس میں 5فیصد اضافہ ہوا تھا۔ لیکن ن لیگی دور حکومت میں اس میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا جبکہ بنگلہ دیش میں یہ تناسب 73فیصد‘ بھارت 59‘ سری لنکا 91اور مالدیپ میں خواندگی کی شرح 99فیصد تک ہے۔ ان اعداد و شمار سے ہمیں اندازہ کر لینا چاہیے کہ ہمارے نظام تعلیم اور خواندگی کی حالت کیا ہے سابقہ حکومتوں نے ملک میں کرپشن کی شرح میں تواس طرح اضافہ کیا کہ پاکستان خطے کے تمام ممالک سے آگے نکل گیا لیکن تعلیم کا بیڑا غرق کر دیا۔ ہم سب سے پیچھے رہ گئے۔ خطے کے ملکوں میں صرف بھوٹان ہی ایسا ملک ہے جس کی شرح خواندگی ہمارے برابر ہے لیکن نیپال بھی ہم سے آگے ہے جہاں خواندگی کا تناسب 60فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ یہ بحیثیت قوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ تعلیم ہی وہ واحد ہتھیار ہے جو قوموں کی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی لاتا ہے۔ موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ وعدے کے مطابق تعلیمی انقلاب لائے‘ قومی میزانیوں میں تعلیم کے لئے سب سے زیادہ رقوم مختص کرے۔ شہریوں کو بھی چاہیے کہ وہ محدود وسائل کے باوجود بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کریں اور انہیں سکول بھیجیں تاکہ ہم خطے کے باقی ممالک کی تعلیمی دوڑ میں خود کو شامل کر سکیں۔ بچوں کے اغوا کی بڑھتی وارداتیں لاہور شہر میں بچوں کے اغوا کی وارداتیں معمول بنتی جا رہی ہیں اوردو روز کے دوران دو بچے اغوا ہو چکے ہیں لیکن ان کی بازیابی کے حوالے سے پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔ گلشن راوی کے 5سالہ سعد کا ابھی سراغ نہیں ملا تھا کہ مصطفی آباد کے 12سالہ عمار کو سکول جاتے ہوئے اغوا کر لیا گیا۔ سعد کو اغوا کرنے والی خاتون کی ویڈیو بھی مل چکی ہے لیکن پولیس اس کا ابھی تک سراغ نہیں لگا سکی۔ 30 گھنٹوں کے دوران اغوا کی یکے بعد دیگرے ہونے والی ان وارداتوں کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس پایا جاتا ہے۔ اغوا کی وارداتوں کو روکنا قانون نافذ کرنے والے اداروں خصوصاً پولیس کی ذمہ داری ہے‘ دو روز میں اغوا کی دووارداتوں سے پولیس کی غفلت کی نشاندہی ہوتی ہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ شہرکے تمام خارجی داخلی راستوں پر چیکنگ کا نظام موثر بنایا جائے اور مشکوک گاڑیوں کو چیک کیا جائے ‘ شہر بھر میں خصوصاً گنجان آباد اور تنگ گلیوں والے علاقوں میں پولیس کا گشت بڑھایا جائے‘ والدین کو بھی چاہیے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، وہ چھوٹے بچوں کو اکیلا نہ چھوڑیں اور پارکوں میں لے جاتے وقت بھی ان کے ساتھ رہیں۔ بچوں کو گھروں سے سکول اور سکول سے گھروں تک محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کے لیے اپنے تمام وسائل استعمال کریں۔