بہت کم پاکستانی جانتے ہوں گے ششی تہور اورشیکھرگپتا کو۔ یاد رہے کہ وہ جو پاکستان کی سیکورٹی پر نظر رکھتے ہیں اور بھارت پر بھی وہ ان دونوں ناموں سے آشنا بھی ہیں اور آگاہ بھی۔ کسی کالم میں اجیت دوول کا بھی ذکر کیا تھا جو اس وقت مودی سرکار کی پاکستان پالیسی کی آنکھ اور کان ہیں۔ اگر آپ ششی تہور اور شیکھر گپتا کے لیکچرز اور ڈسکشن سنیں تو آپ کو بھارتی نکتہ نظر کا پتہ چلتا ہے پاکستان بارے۔ ایک وہ نظر ہے جس سے ہم پاکستانی۔۔۔ پاکستان کو دیکھتے ہیں یا دکھایا جاتا ہے۔ ایک وہ نظر ہے جس سے بھارتی ہمیں دیکھتے ہیں ۔ دونوں عینکوں میں ایک سو اسی ڈگری کا فرق رہا ہے۔ ششی تہور کو عالمی حلقوں میں بطور بھارتی تھنک ٹینک عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔ وہ تقریباً چار سال قبل پاکستان آئے۔ جناح انسٹیٹیوٹ جیسے معتبر پاکستانی تھنک ٹینک نے اُن کے ساتھ ایک سیشن ترتیب دیا اسلام آباد کلب میں۔ ششی بھارتی نکتہ نظر بغیر کسی ملاوٹ کے یا پانی ڈالے بیان کر رہے تھے سٹیج پر۔ ہمارے ایک پالیسی میکر پنڈت کو ان کی بات پسند نہ آئی کہ وہی بھارت کا ایسا نکتہ نظر جو ایک بڑی قوت کا علاقے میں ہوتا ہے۔ ہال کے دروازے پر ایک بڑے میڈیا پنڈت نے پنڈت پالیسی میکر سے کہا ’’سر آپ جا رہے ہیں؟ پنڈت کا جواب بڑا مختصر مگر مفصل تھا’’ میں سمجھا تھا وہ کوئی نئی بات کرے گا مگر وہی پرانے راگ اور الاپ‘‘۔ اگلے دن پاکستان کے ایک پڑھے لکھے اینکر نے اپنے پروگرام میں ششی کے ساتھ دو باخبر اور بامطالعہ میڈیا پنڈت بھی بلا لیے۔ پروگرام کا آغاز ششی کے خیالات سے ہوا کہ وہ مہمان تھے۔ جناح انسٹیٹیوٹ آف پاکستان کے روح رواں اعجاز حیدر جو ہمارے سیکورٹی ایڈوائزر معید یوسف کی طرح عالمی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں سیخ پا ہوگئے۔ کہنے لگے ’’پچھلے 70 سال میں آپ کا ایک بیانیہ طے پایا۔۔ ہمارا ہماری سیکورٹی اور آپ کے رویے بارے ایک اپنا بیانیہ ہے۔ آپ کشمیر کو اپنا اندرونی معاملہ تصور کرتے ہیں۔ ہم اسے اپنے اور آپ کے درمیان ایک ایشو سمجھتے ہیں۔ ہمارے نکتہ نظر کو آپ سائیڈ لائن کردیں۔ تو کیا آپ جو مسلمان کشمیریوں کے ساتھ کر رہے ہیں وہ بنیادی حقوق اور انسانی آزادیوں کے منشور کے مطابق ہے؟ شرکائے پروگرام کے مابین صرف یہی اتفاق ہو سکا کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کے دروازے کھلے رکھنے چاہئیں تاکہ ایک دوسرے کے نکتہ نظر کو سمجھنے کا موقع ملے۔ عین ممکن ہے باہمی میل جول دونوں کے درمیان سیاسی تضاد کی خلیج کو کم کردے۔ اگست 2019ء میں بھارت نے کشمیر کا خود مختار سٹیٹس ختم کردیا اور پھر پاکستان کو دوستی کی آفر بھی کردی۔ ہمارا یہ ماننا تھا کہ کشمیر کاز پر کچھ طے کیے بنا بھارت سے دیگر معاملات پر بات چیت نہیں ہوسکتی۔ ہم نے گزشتہ سات دہائیاں ایک خاص سیکورٹی ڈسپلن میں اپنی سلامتی کی حکمت عملی طے کی۔ ہم اپنے دفاع کو مسلسل صرف فوجی دفاع کی عینک سے دیکھتے رہے۔ اب کہیں جاکر ہماری سول ملٹری لیڈرشپ کو اس کا ادراک ہوا کہ گزشتہ سات دہائیوں میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزرچکا ہے۔ ہمارے اردگرد بھی اور دنیا بھر میں بھی سلامتی کے معنی بدل گئے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس کا اظہار ۔۔ ففتھ جنریشن وار، ہائبرڈ وار اور جیو اکنامکس کی بات کرتے رہتے ہیں۔ آج کی سلامتی کا تصور ملٹری سیکورٹی سے آگے بڑھ کر اکنامک سلامتی کی حدوں میں داخل ہو چکا ہے۔ جیو سٹریٹجک ڈسپلن بدل گئے ہیں۔ خطے کے تضادات نے سلامتی کی شکل ہی بدل دی۔ حکومت اور ریاست دونوں کا درست خیال ہے کہ ایک کمزور معیشت جس کا انحصار بیرونی امداد پر ہو اس کی خود مختاری پر ہمیشہ سوالیہ نشان ٹنگے رہتے ہیں۔ ہم ایٹمی قوت ہیں مگر قومی ترقی کے جن اشاریوں کی ہمیں ضرورت ہے وہ کہیں نظر نہیں آرہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی اور روبہ زوال معاشی استحکام کچھ اور مطالبہ کرتا ہے۔ ان پڑھ بیروزگاروں کا ہجوم ہے جس سے نظریاتی انتہاء پسندی جنم لے رہی ہے۔ ایسے میں کیا ضرورت نہ تھی کہ ریاست اور حکومت بدلتے ہوئے عہد اور عصر کے مطابق پاکستان کے دفاع اور سلامتی کی ضروریات کا ادراک کرتے۔ ریاست کو خطرات کی نوعیت یکسر بدل چکی ہے۔ آج کے خطرات صرف سرحدوں پر دفاع سے متعلق نہیں ہیں۔ آج کی سلامتی، معاشی سلامتی ہے۔ معاشی سلامتی کیونکر حاصل ہو؟ اس کے لیے کیا کیا جائے؟ یہی مرکزی نکتہ خیال ہے ہماری سلامتی کی نئی پالیسی کا۔ طے پایا ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو ری ڈیزائن کیا جائے۔ تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں۔ اس کے لیے بھارتی پنڈت شیکھر گپتا کے مطابق تو سوسال کا عرصہ طے کیا گیا ہے۔اتنا عرصہ جسے حکومتوں کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ مگر قومی سلامتی کا گہرہ تعلق ملک کے اندر سے بھی ہے۔ گڈ گورننس۔۔ نوکرپشن اور قانون کی بے لاگ حکمرانی اس کے بنیادی زاویے ہیں۔ اس کی اہم ضرورت سیاسی استحکام بھی ہے اور قومی اتفاق رائے بھی۔ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لے لینا کیا کافی ہے؟ بالکل نہیں، قطعاً نہیں۔ ضرورت ہے اس پر ایک طویل بحث اور مباحثے کی۔ وہ طبقات جن کی دوکانیں بند ہونے کا خطرہ ہے ، انہیں اعتماد میں لینے کی۔ بدلتے ہوئے عالمی رجحانات کے متعلق انہیں بتانے کی۔ ضرورت ہے مکالمے کی ۔ سول سوسائٹی سے ، پروفیشنل گروپ سے اور عوام سے کہ ایک ایسی رائے عامہ ہموار ہو کہ عوام میں یہ احساس پیدا ہو کہ وہ بھی فیصلہ سازی کا حصہ ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ دشمن اُن کے احساس محرومی کو ہمارے خلاف استعمال کرلے ۔ ورنہ حکومت بھی چاہ لے اور ریاست بھی طے کرلے اگر چھوٹی چھوٹی بوٹیوں کے طلبگار ریاستی جسم کو چھریاں گھونپنے اور زخم لگانے سے باز نہ آئے تو قصور کسی اور کا ہوگا اور بھگتے گا کوئی اور ۔