کنونشن سنٹر اسلام آبادمیں یوم آزادی کی مناسبت سے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر مملکت ممنون حسین نے کہا کہ ’’ترقی یافتہ‘ مضبوط اور جمہوری پاکستان ہماری منزل ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے بے مثال قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل کیا‘ بعد میں آنے والوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس ملک کو بانیان پاکستان کے خوابوں کے عین مطابق بنائیں‘‘اس موقع پر صدر مملکت نے فتح مکہ کے موقع پر معاف کرنے اور تلخیاں بھلانے جیسی مثال دہرانے کی ضرورت پر زور دیا۔ جناب ممنون حسین نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے پچیس جولائی کو پرجوش طریقے سے اس اصول پر ایک بار پھر مہر ثبت کر دی ہے کہ پاکستانی عوام کی منشا سے وجود میں آیا اور اس کی قسمت کے فیصلے ووٹ کی پرچی سے ہوں گے۔ درپیش صورت حال میں صدر مملکت کا یہ فرمانا اہمیت رکھتا ہے کہ عوام کے حقیقی نمائندے وہی لوگ ہیں۔ جنہیں عوام منتخب کریں۔ صدر مملکت نے اپنے خطاب میں جن خیالات کا اظہار کیا وہ قیام پاکستان کے مقاصد‘ سیاسی برداشت اور جمہوری اصولوں کے احترام سے متعلق ہیں۔ پاکستان میں ایک ایسا نظام موجود رہا ہے جس کی خامیوں کو درست کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ جمہوری روایات کو اس طرح تبدیل کیا گیا کہ سیاست میں روپے پیسے کا عمل دخل بڑھ گیا۔ اس سے رضا کار سیاسی کارکن معاوضہ اور مفادات کا تقاضہ کرنے لگے۔ سیاست سے نظریات رخصت ہو گئے۔ جو شخصیت زیادہ رقم خرچ کر سکتی تھی وہ اقتدار میں آ جاتی یوں اسمبلیوں میں جو لوگ رکن منتخب ہو کر بیٹھے وہ طبقہ امرا کے نمائندے تھے۔ متوسط اور زیریں طبقات کی نمائندگی پارلیمنٹ سے مفقود ہو گئی۔ پیسے کو اہمیت ملی تو شخصیت پرستی بھی اہم ہو گئی۔ ان تمام خرابیوں نے جس چہرے کو ابھارا وہ اس وقت نااہل ہو کر جیل کاٹ رہا ہے۔ یہ امر ریکارڈ پر ہے کہ بعض اہم شخصیات نے قومی اداروں کو عوامی مینڈیٹ چرانے کے لیے استعمال کیا۔ آئی جے آئی کی تشکیل اور پھر میاں نواز شریف کو حکومت دے کر جمہوری اصولوں کی نفی کی گئی۔ اگر عوام کی خواہش کے مطابق اور ان کے ووٹ کا احترام کرتے ہوئے نمائندوں کو منتخب کیا جاتا تو آج ہماری تاریخ میں جو چیزیں جمہوری عدم فعالیت کی ذیل میں درج ہو چکی ہیں ان سے بچا جا سکتا تھا۔ ہمارا یہ المیہ رہا ہے کہ ہم نے کئی اہل رہنمائوں کو صرف اس لیے متنازع بنا دیا کہ وہ مختلف نکتہ نظر کے مالک تھے‘ سیاسی اختلاف رائے کے اظہار کی روایت مستحکم نہ ہونے دی گئی۔ سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی بنا کر مخالف کی جان‘ مال اور آبرو تک پر حملہ جائز قرار دیدیا گیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول رہنما کے زمانے میں ایسے کئی معاملات سامنے آئے۔ بعدازاں میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے بے نظیر بھٹو اور عمران خان کے خلاف ایسی مہم چلائی جسے ہر باشعور شہری اخلاق سے گری اشتہار بازی قرار دیتا ہے۔ اس طرح کی بری روائت عام کرنے کا ایک نقصان یہ ہوا کہ ووٹر اور اس کے نمائندے کے تعلقات میں خلا پیدا ہو گیا۔ ووٹر چونکہ اب نظریات کی بجائے معاشی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر کسی کی حمائت کا فیصلہ کر رہا تھا اس لیے بطور قوم ہم نے اجتماعی ضروریات کے متعلق سوچنا بند کر دیا۔ اپنے بیٹے بیٹی کی نوکری‘ اپنے خاندان کی بہبود اور اپنے دوستوں میں فوائد کی تقسیم اہمیت اختیار کر گئے۔ قوم کے بچے بے روزگاری کی چکی میں کس طرح قیمہ بن رہے ہیں اس سے کسی کو سروکار نہ تھا۔ بطور قوم ہمارے اجتماعی مفادات کا نقصان ہو رہا تھا لیکن سیاسی اور جمہوری روایات چند خاندانوں کے مفادات کا تحفظ کر رہی تھیں۔ حالیہ انتخابات کے دوران ووٹ کے ذریعے عوام نے نہ صرف اپنے حقیقی نمائندوں کا انتخاب کیا بلکہ ماضی کی ان روایات سے بیزاری کا اظہار بھی کر دیا جو زبردستی جمہوریت کے ساتھ جوڑی جا رہی تھیں۔ صرف روز گزشتہ کے دوران کیا کچھ بدل گیا۔ قومی اسمبلی کے اراکین نے ووٹ کے ذریعے نئے سپیکر کا انتخاب کیا۔ ہارنے والے امیدوار سید خورشید شاہ نے فراخدلی کے ساتھ اسد قیصر کی کامیابی کو تسلیم کیا۔ اسی طرح کے پی کے اسمبلی اور سندھ اسمبلی نے سپیکر حضرات کا انتخاب ایک صحت مند جمہوری فضا میں کیا۔ یعنی اپوزیشن جماعتوں نے کچھ شور شرابہ اور نعرے بازی کی تاہم زیادہ تر سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ قوم اپنے نمائندوں سے سنجیدگی کی توقع ہی کرتی ہے کیونکہ ان نمائندوں کو جن مسائل کے حل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہے وہ پوری توجہ اور تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں۔ موجودہ اسمبلی اس لحاظ سے انفرادیت رکھتی ہے کہ پاکستان کی جمہوری تاریخ میں تحریک انصاف وہ تیسری سیاسی جماعت ہے جو مرکز میں حکومت بنا رہی ہے۔ نومنتخب سپیکر اسد قیصر کے سامنے مولوی تمیزالدین ‘ معراج خالد‘ یوسف رضا گیلانی اور فہمیدہ مرزا جیسی مثالیں ہیں۔ انہیں اس راستے سے گریز کرنا ہو گا جو سابق سپیکر نے ایک جماعت کی حمائت میں اختیار کیا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف برسر اقتدار جماعت کے اراکین کا جس قدر خراب طرز عمل اور رویہ سابق سپیکر کے دور میں سامنے آیا اس کی نظیر نہیں ملتی۔ موجودہ قومی اسمبلی میں بدزبانی کے لیے بدنام بہت سے سیاستدان داخل نہیں ہو سکے تاہم اسد قیصر کے کندھوں پر ذمہ داری آن پڑی ہے کہ تحریک انصاف تبدیلی کا وعدہ کر کے اقتدار تک پہنچی ہے، وہ تبدیلی سپیکر کے رویے اور اسمبلی کی کارروائی کے دوران بھی محسوس کی جا سکے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی ترقی‘ خوشحالی اور استحکام کا وہ خواب پورا نہیں ہو سکا جو ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا۔ صدر مملکت کا یہ کہنا درست ہے کہ یہ نئے آنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کو بانیان پاکستان کے خوابوں کی صورت میں ڈھالیں۔ پارلیمنٹ میں پہنچنے والی جماعتوں اور ان کے قائدین کا فرض ہے کہ وہ خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کے خلاف سازشوں کے تانے بانے سے ہوشیار رہیں اور کسی ایسے حسین دھوکے میں نہ آئیں جو ملک میں انتشار کا باعث بنے۔ داخلی امن اور استحکام کے لیے ضروری ہے کہ حقدار کو اس کا حق ملے اور مجرم کو اس کے جرم پر سزا یقینی بنائی جائے۔ تمام سیاسی قیادت کے لیے یہ ایک بڑا چیلنج ہو گا کہ وہ عوام میں پائے جانے والے اس تاثر کی نفی کرنے میں کامیاب ہو جائیں کہ سیاسی جماعتیں مخصوص خاندانوں کی ملکیت نہیں بلکہ وہ عام آدمی کی بہبود کا ادارہ ہیں۔ بانیان پاکستان کے پیش نظر ایسی ریاست تھی جو پسماندہ، کمزور اور بے سہارا طبقات کا سہارا ہو۔ نو منتخب اراکین اسمبلی اگر ریاست کی اس ذمہ دار شکل کو اجاگر کرنے کے لیے خلوص نیت سے کام کریں تو ہمارے بہت سے قومی اہداف آسان ثابت ہو سکتے ہیں۔