تیرہ جنوری دو ہزار اٹھارہ کو کراچی سے ایک خوبرو نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کی خبر بریک ہوئی۔ شوشہ یہ چھوڑا گیا کہ نقیب اللہ محسود ایک ہائی پروفائل دہشتگرد تھے جومُجرب انکاونٹر سپیشلسٹ ایس پی رائو انوار کی سربراہی میں ایک پولیس مقابلے میں مارے گئے۔ایک دو دن بعد جب رائو انوار اینڈ کمپنی کے دعوے کی قلعی کھل گئی کہ’’نقیب اللہ محسود زندگی کو ختم کرنے والے دہشتگرد نہیں بلکہ زندگی سے لطف اندوز ہونے والے ایک ماڈل تھے۔ اس کے بعد دو فروری دوہزار انیس کو ضلع لورالائی میں پروفیسر ابراہیم ارمان لونی ایک پینتیس سالہ نوجوان پولیس ہی کے ہاتھوں نہایت بے دردی سے مارے گئے۔ قتل کا مرکزی کردار ایس پی عطاء الرحمن ترین تھے جنہوں نے بندوق کے بٹ مارمار کر ارمان لونی کو شہید کر دیا ۔ پروفیسر لونی کا جرم یہ تھا کہ وہ لورالائی میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے خلاف ایک دھرنے کے منتظم تھے ۔ اسی طرح اسی سال فروری ہی کے آخری ہفتے میں کراچی پولیس نے نمرہ بیگ نامی ایک معصوم لڑکی کی جان فتح کرلی۔بائیس سالہ نمرہ ڈائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزمیں ڈاکٹر آف پیتھالوجی کی فائنل ایئر کی طالبہ تھیں۔پولیس کی دلیل تھی کہ وہ دراصل شاہراہِ نور جہاں پر ڈاکووں کا تعاقب کررہی تھی کہ بیچ ڈاکووں کے بجائے گولی نمرہ کو لگی ۔ پولیس کی غفلت یہاں ہی ختم نہیں ہوتی اکیس جنوری دوہزار بیس کو فیصل آباد کے رہائشی وقاص گجر سمندری روڈ پر اس وقت ہلاک کردیئے گئے جب وہ اپنی گاڑی میں چار دیگر افراد کے ساتھ محو سفر تھے۔ہلاک کرنے والی فیصل آباد پولیس کی ٹیم تھی۔سوال پیدا ہوا کہ کیا وقاص گجر ایک اشتہاری لٹیرا یا دہشت گرد تھا؟ جواب :نہیں ۔ دوسرا سوال: کیا وہ ایک مفرور قاتل تھا؟ نہیںمفرور قاتل بھی نہیں تھا- بات دراصل کچھ یوں تھی کہ جب پنجاب ہائی وے کے انچارج شاہد منظور اور ان کی ٹیم نے وقاص کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی توگاڑی نہ روکنے کی گستاخی کی پاداش میں پولیس نے ان کا کام تمام کردیا۔ ظلم یہاں ہی ختم نہیں ہوا روان سال دو جنوری کی رات اسلام آباد کے سیکٹر ایچ الیون کے احاطے میں اسامہ ستی نامی ایک اکیس سالہ نوجوان قتل ہوئے۔چار افراد نے ان کی گاڑی پر چوبیس گولیاں ماریں جن میں سے سترہ گولیاں اسامہ کو لگیں۔گولی مارنے والے اس مرتبہ بھی پولیس ہی کے غازی تھے۔سوال: کیااسامہ ستی ایک موسٹ وانٹڈ دہشتگرد تھے کہ پولیس نے موقع پاتے ہی ان کی گاڑی پر چوبیس گولیاں چلا کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا؟ جواب: نہیں دہشتگرد تو نہیں تھے البتہ ان کا جرم بھی دہشتگردی سے کچھ کم نہیں تھا کیونکہ پولیس کے اشارہ کرنے کے باوجود وہ نہیں رُکے تھے۔ اسامہ ستی کے قتل کے صرف دو تین روز بعدشہرقائد کی پولیس نے شہر میں چار ڈاکووں کو رائوانوار طرز کے ایک مقابلے میںہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ۔ہلاک شدگان میں گلگت سے تعلق رکھنے والے ستائیس سالہ سلطان نذیربھی شامل تھے۔سلطان کی گمشدگی کے بارے میں جب پولیس سے رابطہ کیاگیا تو معلوم ہوا کہ پولیس نے اس ڈاکو کی لاش چھیپا کے سرد خانے میں جمع کردی ہے۔ سلطان نذیر کے ورثا نے واقعے کی تحقیقات شروع کی کہ ان کا بیٹا آخر اتنی جلد ایک طالبعلم سے ڈاکو کیسے بن گئے ؟تاہم چند دنوں کے بعد یہ اس واقعے میں بھی دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوگیا۔ شہرقائد ہی میں اپریل دوہزار انیس کوبیس ماہ کا ایک شیر خوار بچہ چل گولی لگنے سے چل بسا۔یہ گولی پولیس والوں نے دراصل ڈاکووں پر چلائی تھی لیکن بیچ میں رکشہ آگیا اوراس میں سوار بچہ ہلاک ہوگیا ۔ اسی سال اپریل کے مہینے میں کراچی میں ایک اور دس سالہ امل عمر بچی بھی پولیس کی گولی کانشانہ بنی حالانکہ اس فورس کے تجربہ کار بندے مبینہ ڈاکوں کو نشانہ بنانے کیلئے نکلے تھے۔ستمبر دوہزار انیس کا پہلاہفتہ تھا کہ رحیم یارخان میں پولیس نے صلاح الدین نامی ایک لڑکے کو اے ٹی ایم توڑنے کے جرم میں حراست میں لیااور دوران حراست انہیں تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ صلاح الدین دراصل ایک ذہنی معذور تھا جو نہ صرف اپنی شکل سے بھی ذہنی مریض لگ رہا تھا بلکہ اس کے والد نے ان کے بازو پر ان کا نام اور پتہ بھی اسلئے کندہ کیا تھا تاکہ ان کے بارے میں گھر سے رابطہ کرنے وقت مشکل نہ ہو۔ لیکن پولیس نے بڑا کمال کردیا کہ ان موٹی نشانیوں کے باوجود وہ صلاح الدین کو پہچان نہ سکی۔ آگے بڑھیئے یہ جنوری دوہزار انیس کی انیس تاریخ تھی کہ ساہیوال ٹول پلازہ پر پنجاب کے انسداد دہشت گردی کے ماہرین نے والد، والدہ ، بچی اور گاڑی کے ڈرائیور کو دہشت گردی کے الزام میں گولیاں مار کر ایسا خاموش کردیا کہ بعد میں وہ دہشتگردی نام کا لفظ تک بھی بھول گئے ۔ پولیس نے اس مرتبہ بھی حسب استطاعت من گھڑت الزامات واتہامات کا خوب سہارا لیا یہاں تک کہ ہلاک شدگان کے ڈانڈے داعش سے بھی ملائے اور ان کی گاڑی سے خودکش جیکٹ برآمدکرنے کا دعوی بھی کیا لیکن بعد میں سچ جیت گیا اور جھوٹے اپنا سامنہ لے کر رہ گئے۔تازہ ترین واقعہ تین دن پہلے کوئٹہ میں پیش آیا ۔یہ واقعہ بھی اسامہ ستی کے قتل کے واقعے سے ملتا جلتاتھا۔ فیضان جتک نامی ایک خوش رنگ اور خوش لباس نوجوان پانچ مئی کی رات کو اپنی گاڑی میں سریاب روڈ پر اپنے گھر جارہے تھے کہ راستے میں پولیس کے ایگل نامی سکواڈ کے اہلکاروں نے انہیں رکنے کا کہا۔ فیضان نہیں رکے تو بندوق برداروں نے فائرنگ کرکے موت کے گھاٹ اتار کر ان کوہمیشہ ہمیشہ کیلئے رکوادیا ۔ بس یہ تھا ہماری پولیس کی دوتین سال کی مختصر کارگزاری کا اجمالی جائزہ جو پولیس نے (شاید) ملک اور عوام کے وسیع تر مفاد میں پیش کی ،البتہ یہ الگ بات ہے کہ ہم ناشکروں سے یہ خدمت مزید برداشت نہیں ہوپارہی۔لاحول ولا قوۃ ۔