لڑکپن میں جب کبھی آوارہ گردی کر کے گھر واپس لوٹتے تو دادی جان کہتیں ’’ماشاء اللہ آ گئے، ساتھ یہ کہتیں‘‘ ’’انھے کتے ہرناں مگر‘‘تب تو ہم اسے ایک طعن سن کر خاموش رہتے۔ بہت بعد میں اس محاورے پر غور کیا کہ دادی جان یہ کیا کہتی تھیں’’انھے کتے ہرناں مگر‘‘ یعنی اندھے کتے ہرنوں کے پیچھے۔ مطلب سمجھ میں آیا کہہ ہرنوں کا شکار اندھے کتے کیا کر سکتے ہیں‘ دوسرے لفظوں میں ہماری آوارہ گردی ایک بے مقصد کام تھا یا ہماری سرگرمیاں ایسی ہی تھیں جیسے کہ اندھے کتے ہرنوں کے شکار میں بے سمت دوڑتے پھریں۔ پتہ نہیں مجھے یہ مثال کیوں یاد آئی! آج بھی بعض اوقات ایسا ہی ہوتا ہے کہ ہم بے سبب ایسا کام کرتے نظر آتے ہیں جس کا حاصل حصول کچھ نہ ہو چلیے آپ کو اپنے ہی شعر سے بات سمجھا دیتے ہیں کہ: رونا یہی تو ہے کہ اسے چاہتے ہیں ہم اے سعد جس کے ملنے کا امکان بھی نہ ہو اب دیکھیے ناں یہ جو ریلی نواز شریف کے استقبال کے لیے جناب شہباز شریف نے نکالی کیا تھی! لوگ اس پر پھبتیاں کستے رہے۔ کسی نے کہا کہ چھک چھک چھک چھک گاڑی چلتی جائے‘ لیکن منزل کبھی نہ آئے بعدازاں کسی نے کہا ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں‘‘ یعنی نواز شریف صاحب پکڑے بھی جا چکے اور اپنی منزل کی طرف اڑان بھر گئے مگر ریلی راستے ہی میں بھٹکتی رہی۔ سب کو معلوم تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے ممکن نہیں تھا کہ لوگوں کا جلوس لے کر ایئر پورٹ تک پہنچا جا سکے پھر اگر چلے بھی جاتے تو حاصل کیا ہوتا لوگ گلیوں ہی میں بھٹکتے رہے۔ زیادہ سمجھدار لوگ پہلے ہی گرفتار ہو گئے۔ کچھ کے آڑے بہانے آ گئے ویسے بھی شہباز شریف کو نواز شریف کے ساتھ وفا بھی کرنا تھی اور اپنی ساکھ بھی بچانا تھی۔ یعنی بات کرنی بھی ہے چھپانی بھی۔ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ مگر یہاں تو سانپ بھی نہیں تھا ایک فرضی لکیر سی تھی۔ مسئلہ کچھ بھی نہیں تھا ایسے ہی رائی کا پہاڑ بنایا گیا۔ ایک ہائپ پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ۔ میڈیا نے زمین آسمان ایک کر دیا اور لمحہ بہ لمحہ نواز شریف کی آمد کو ایک ڈرامائی اور ہیرو کے انداز میں پیش کرتا رہا۔ حالانکہ سیدھی سی بات تھی کہ دو ملزم نہیں مجرم گرفتاری دینے کے لیے آ رہے تھے تاکہ ان کی اپیل دائر کی جا سکے اور دوسری جگہ سیاسی بساط پر رہا جا سکے۔ اس کے لیے اتنا ہنگامہ دو تین روز تک لاہور کا کاروبار زندگی بند ہو کر رہ گیا۔ دفتری نقصان الگ ہوا کس قدر غیر سنجیدہ معاملہ ہوا۔ نگران حکومت بھی اس میں ذمہ دار ہے فضول میں کنٹینر لا کھڑے کیے اور پکڑ دھکڑ کی کہ جیسے کوئی ان کا تختہ الٹنے والا تھا۔ خواہ مخواہ چائے کے کپ میں طوفان اٹھایا گیا۔ اتنی حیل و حجت سے کوئی ٹس سے مس نہ ہوا‘ قوم کا کتنا وقت ضائع کیا گیا۔ اس سے کہیں اہم واقعہ مستونگ میں دھماکہ تھا جس میں سراج رئیسانی سمیت 149بے گناہ زندگی ہار گئے اور 122زخمی ہوئے۔ دوسری طرف بنوں میں اکرم درانی کے قافلے پر بھی حملہ ہوا جس میں 5شہید اور 30زخمی ہوئے اس سے پیشتر ہارون بلور کی شہادت اگر شہباز شریف ملکی حالات کے پیش نظر شہدا کے غم میں ریلی منسوخ کر دیتے اور خاموش احتجاج کرتے جس میں شہدا کے لیے دعا کرتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ ان لوگوں کی بصیرت مشکوک لگتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ نواز شریف گرفتاری دے کر بڑے لیڈر بن گئے اور مریم کا بھی قد اونچا ہو گیا۔ مگر جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس اور آپشن کون سی تھی تو وہ مسکرانے لگتے ہیں بار بار ذکر کرتے ہوئے بہت عجیب لگتا ہے کہ جیسے ہم کوئی گھسا پٹا لطیفہ دوبارہ سنانے جا رہے ہیں بھائی جان عدلیہ بیچاری نے تو کبھی انہیں جا کر نہیں کہا کہ آئیے آپ کا فیصلہ کریں چودھری نثار بھی میاں صاحب کو سمجھاتے رہے کہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھیں مگر میاں صاحب خود اپنا کیس عدالت لے کر گئے پھر عدالت توثبوت دلائل کوائف اور گواہ مانگتی ہے پہلے آپ آئیں بائیں شائیں اور پھر شائیں بائیں آئیں کرتے رہے۔ ایک بھی ثبوت آپ پیش نہیں کر سکے جے آئی ٹی بننے پر جو لڈو آپ نے کھائے ان کا ذائقہ ابھی تک آپ کے منہ میں ہو گا۔ اب لوگوں کا یہ خدشہ بھی کچھ غلط نہیں لگتا کہ جب بھی میاں صاحب کے لیے مشکل وقت آتا ہے تو دھماکے شروع ہو جاتے ہیں ایک زمانے میں تو بھارت اپنی فوج بارڈر پر لے آیا تھا بھارت میں تو میاں صاحب کو ہیرو مانا جاتا ہے میں نے خود ایک مرتبہ ایک سیشن میں بھارت سے آئے ہوئے مندوبین ہی نہیں اپنے بھارت نواز عبقری لوگوں سے ان کانوں سے سنا کہ نواز شریف کو پاکستانی عوام نے بھارت کی دوستی کے ایجنڈے پرووٹ دیا ہے۔ سراج الحق صاحب نے درست کہا ہے کہ موجودہ دھماکے اصل میں الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی کوشش ہے یہ بھی کسی نے درست کہا کہ الیکشن ملتوی نہیں ہونے چاہئیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کیئر ٹیکر انڈر ٹیکر بن جائیں۔ ایک بات اور سراج الحق نے کہی جو بہت دلچسپ ہے کہ ووٹ کو عزت دو اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ آپ عزت دار کو ووٹ دیں۔ مصیبت یہ کہ فی زمانہ عزت دار کا معیار بھی بدل گیا ہے یہاں تو اسی کو عزت دار سمجھا جاتا ہے جو آپ کے کام آ سکے جیل سے آپ کو چھڑا سکے مال دار ہو اور چار کلاشنکوف والے ساتھ رکھتا ہو‘ شریف اور صاحب کردار آدمی جو سچا اور صاف گو ہو اسے کون پسند کرتا ہے یہاں تک بھی کہتے سنا گیا کہ یہ تو اللہ لوگ ہے اس نے تو اپنے لیے کچھ نہیں بنایا ہمارے لیے کیا کر سکتا ہے: مرا مزاج بنایا ہے اس زمانے میں ذرا سی مجھ میں بھی آلودگی ضروری تھی اس حوالے سے ایک اور شعر ذہن میں آ گیا: باعث فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا مگر اجڑتے تھے اس الزام سے پہلے پہلے اس حوالے سے ہمیں اپنے تئیں بھی اپنا محاسبہ کرنا چاہیے۔ ہمیں دیانتدار بن کر دیانتداری اور امانت دار بن کے امانت کے بارے میں سوچنا چاہیے۔ مولانا امجد نے درست کہا کہ وہ ووٹ کی طاقت سے اسلامی انقلاب لا کر دم لیں گے۔ یہ ایک مثبت رویہ ہے کہ جو رائج نظام ہے اس کے تحت آپ کو محنت کرنا ہو گی کہ لوگوں کو قائل اور حائل کریں۔ مصر میں بھی ایسا ہی ہوا تھا جو امریکہ سے برداشت نہ ہوا کہ اسے جمہوریت میں مسلمان حکومت پسند نہیں۔ چلیے ایک کوشش تو ہے سمت تو درست ہے اگر جیتنے والا ہی راہ راست پر آ جائے تو کیا عجب ہے فی الحال تو عوام نظروں میں ہیں کہ وہ آ کر کیا ڈلیور کرتے ہیں۔ یہ قوم کسی کو سر پر بٹھانے اور پھر پٹخنے میں دیر نہیں لگاتی۔ جو بھی آئے گا اسے اب کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ آپ ایک ڈار کی مثال ہی لے لیں کہ وہ کس طرح پیسہ نچوڑ کر لے گیا۔ اس کا لگایا ہوا ود ہولڈنگ ٹیکس جو سراسر جگا ٹیکس ہے‘ اب تک چل رہا ہے۔ پیسہ آتا کس کو برا لگتا ہے۔ دیکھتے ہیں عمران خان اس ڈار ٹیکس کو جو سراسر بے جا ہے ختم کر سکیں گے۔ دوسری طرف بڑے بڑے کاروباری غنڈے ٹیکس دینے کی بجائے پارٹی فنڈ دیتے ہیں۔ آخر میں نجیب احمد کا شعر: ہم ایسے بھی گئے گزرے نہیں ہیں ہمارے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے