دو چار ماہ سے وہ قدرے علیل تو تھے مگر یہ دنیا چھوڑ جائیں گے۔ کسی کو یقین نہ تھا ۔مجھے سمجھ نہیں آتا کہ میں ان سے اپنے تعلق کو کس حوالے سے بیان کروں۔میں برسوں کراچی میں نوائے وقت کا ایڈیٹر رہا ہوں۔ اس لحاظ سے وہ مجید نظامی سے پہلے میرے باس تھے۔ تاہم ان سے ہمیشہ ایک دوستانہ تعلق رہا۔ انہوں نے صحافت کا پیشہ اس وقت اختیار کیا جب میں نے بھی اس میدان میں قدم رکھا۔ وہ یونیورسٹی میں ہم سے ایک آدھ برس جونیئر تھے۔ نوائے وقت اس زمانے میں بحران کا شکار تھا۔اس بحران سے نکلا تو میں نے عارف نظامی کو ایک رپورٹر کے طور پر اپنے ساتھ پریس کانفرنس اٹینڈ کرتے دیکھا۔ اخبار کا ایک مالک اور عملی صحافت میں یوں شامل ،یہی ان کا مضبوط پہلو تھا۔ آج بھی لوگ انہیں انکی بعض خبروں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ان کا ایک ضمنی پہلو تھا اور یہ اس وجہ سے تھا کہ ان کے ہر شعبہ حیات کے ممتاز افراد سے قریبی تعلقات تھے،جس کی وجہ سے انہیں خبروں تک رسائی حاصل تھی،ایک اچھا صحافی ہونے کے لئے یہ ہونا کافی نہیں ہوتا۔اس کے لئے ایک زیرک نگاہ اور ایک گہری پرکھ کی ضرورت ہوتی ہے،جو ان میں بدرجہ اتم موجود تھی۔اگر دیکھا جائے تو نوائے وقت میں جہاں مجید نظامی کا ہاتھ تھا وہاں عارف نظامی کی کاوشوں کا بہت بڑادخل تھا۔شاید ان کے بغیر نوائے وقت اپنا کردار ادا نہ کر پاتا۔ اس سلسلے میں بہت سی باتیں بیان نہیں کرنا چاہتا مگر یہ ضرور کہوں گا کہ وہ اس اخبار کا رنگ روپ نکھارنے میں ایک بنیادی کردار ادا کرتے رہے۔ جب اس ادارے نے نیشن نکالا‘تو اس کے بانی ایڈیٹر عارف نظامی صاحب تھے۔ بلا شبہ انہوں نے پاکستان کی انگریزی صحافت میں ایک نئی طرح ڈالی اور جب انھوں نے پاکستان ٹوڈے نکالا تو یہ ایک غیر معمولی تجربہ تھا۔مجھے یقین ہے اگر وسائل دستیاب ہوتے تو یہ تجربہ ایک قیامت ڈھا دیتا۔ اس سے ملتا جلتا تجربہ اردو میں صرف کاغذی حد تک میں بھی کر چکا تھا۔’’حریت‘‘ کے زمانے میں حمید ہارون سے مل کر پورا ڈھانچہ تیار کیا تھا مگر افسوس یہ بیل مونڈھے نہ چڑھی۔عارف نظامی نے انگریزی میں یہ تجربہ کر دکھایا۔ جنہوں نے ان کی تحریریں پڑھی ہے۔یا تجزیے سنے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ وہ کس گہرائی میں اتر کر اعتدال کے ساتھ تجزیہ کرنا جانتے تھے۔ یہ صلاحیت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔جب ادارہ نوائے وقت نے ’’وقت‘‘ کے نام سے اپنا چینل شروع کرنا چاہا تو ابتدائی سارا کام عارف نظامی ہی نے کیا ۔وہی میری لاہور آمد کا سبب بنے ۔میں کراچی میں اپنے 34سال کے قیام کو ختم کر کے لاہور آنے پر آمادہ ہو گیا۔ مجھے یقین ہے اگر یہ ذمہ داری عارف نظامی کے پاس رہتی تو نہ میں ادارہ چھوڑتا نہ یہ چینل ناکام ہوتا۔عارف صاحب میں اتنی بصیرت تھی کہ وہ اس کارخیر میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا ثبوت دیتے۔مجید نظامی کی میں آج بھی بے پناہ عزت کرتا ہوں، ان سے میرے تعلق کی نوعیت یہ تھی کہ جب میں ان سے وقت چینل پر آخری بات کرنے یا یوں کہہ لیجیے انٹرویو دینے آیا تو عارف صاحب نے ان سے کہا آپ ان سے جو پوچھنا چاہیں پوچھ لیں۔مجید نظامی صاحب ازراہ الفت جواب دیا‘ مجھے کیا پوچھنا ہے‘ یہ مجھے جانتے ہیں‘ میں انہیں جانتا ہوں، اس کے باوجود یہ تجربہ ناکام رہا۔مجھے ساڑھے چار ماہ کے اندر یہ ادارہ چھوڑنا پڑا، بس یہی عرض کرنا ہے کہ عارف صاحب چینل کے معاملات سے الگ کر دیے گئے تھے، جو اس کی ناکامی کا سبب بنا۔ وہ اتنے متنوع تھے کہ ان سے مل کر اگرچہ مجید نظامی سبھی کو یہ کہتے تھے میں نے چینل سجاد میر کے سپرد کر دیا ہے، یہ چینل خوب چل سکتا تھا۔ مجھے آج بھی مجید نظامی صاحب سے محبت ہے مگر دکھ ہے کہ ہم ان کی یہ خدمت نہ کر سکے۔ نوائے وقت کے اندر بھی عارف نظامی صاحب سے بڑا دوستانہ تعلق تھا۔ایک بار امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کے بعض صحافیوں کو امریکہ مدعو کیا۔مجیب الرحمن شامی ،ضیاشاہد‘ ارشاد حقانی سمیت کوئی دس لوگ تھے۔ اب سوال تھا کہ مجید نظامی صاحب کو کیسے منایا جائے۔ مسئلہ یہ تھا کہ دعوت نامہ مجھے براہ راست آیا تھا۔ میں نے عارف صاحب سے بات کرنے کی ٹھانی اور انہوں نے میری پوری مدد کی حالانکہ وہ انکار کرتے تو اصولاً اس اہم ٹور پر انہیں جانا تھا۔یہ نائن الیون کی پہلی سالگرہ یا برسی پر شمولیت اور بریفنگ کے سلسلے میں تھا۔ عارف نظامی صاحب ہر ایسے معاملے میں مدد گار رہے۔مشرف جب آگرہ گئے تو ایک وفد پاکستان سے گیا تھا۔ اس میں بھی مجھے جانے کا موقع ملا۔ میں ان واقعات کا ذکر اس لئے کرنا چاہ رہا ہوں کہ اس میں ان کی مروت اور دوستی میرے بہت کام آئی۔ جب نگران وزیر اطلاعات بنے تب بھی وہ چاہتے تھے کہ ہم لوگ آگے آئیں۔انہوں نے ہمیشہ اپنے دوستوں سے رابطہ رکھا اور رہنمائی چاہی۔یہ باتیں جانے میں کیوں لکھ رہا ہوں۔ان کے لکھنے کا محل نہیں۔اس لئے مبہم مبہم سی اکھڑی اکھڑی باتیں کر رہا ہوں۔ وہ ایوان اقبال کے بھی سربراہ تھے‘ اس کے ساتھ اس مرکزیہ مجلس اقبال کے بھی جو اس ملک میں اس حوالے سے قدیم ترین ادارہ ہے۔ان کے ساتھ اس حوالے سے کام کرنے اور مجلس کے ہر اجلاس میں بطور مقرر شریک ہونے کا اعزاز مجھے حاصل رہا۔یہ صرف ان کی کرم فرمائی تھی۔ یہ ادارہ بہت خوبصورتی اور خاموشی سے اپنا کام کر رہا تھا۔ہر سال بلکہ سال میں دوبار اس کے اجلاس بڑے زور و شور سے ہوتے۔اس کے علاوہ یوم حمید نظامی‘ قائد اعظم ڈے اور پاکستان ڈے بھی اہتمام سے منائے جاتے اور وہاں تقریر کرنا ضروری تھا۔ عارف صاحب ہمیشہ اس بات پر اصرار کرتے۔سال میں چار چھ بار ہم پانچ چھ لوگ کھانے پر بھی اکٹھے ہوتے۔عام طور پر میزبان عارف صاحب ہوتے، جس میں ہم یکجہتی کے چند مسائل پر گفتگو کرتے۔ان کا بھی تذکرہ پھر کبھی سہی۔ عارف صاحب نے ہر چینلز میں کام کیا۔ وہ مالکان اور مدیران کی تنظیموں میں بھی سرگرم رہے۔ ان کے ساتھ تاریخ کا ایک باب ختم ہو گیا۔ وہ باب جس کا آغاز ان کے والد محترم حمید نظامی سے ہوتا ہے۔ ان کے جنازے میں خواجہ سعد رفیق ملے تو کہنے لگے ان سے ہر سال قبرستان میں ملاقات ہوتی تھی۔ان کے والد خواجہ رفیق اور عارف صاحب کے والد حمید نظامی اور والدہ کی قبریں ساتھ ساتھ ہیں۔وہیں آغا شورش کشمیری اور چراغ حسن حسرت کی قبریں بھی ہیں۔ اب عارف صاحب کے لئے وہی جگہ چنی گئی ہے جو دنیا میں اکٹھے تھے‘انہیں خدا نے وہاں بھی اکٹھا کر دیا ہے۔