غلامی کسی کو بھی پسند نہیں ہوتی ، کوئی بھی انسان اپنی چاہ اور دل سے کسی کا نوکر نہیں بنتا ۔ خاص طور پر وہ بچے جن کی عمر ہاتھوں میں کھلونے ، کتابیں اور خواہشیں پوری کرنے کی ہوتی ہیںاگراس عمر میں ان کے ہاتھوں میں جھاڑو اور کندھوں پر بڑی ذمہ داریاں ڈال دی جائیںتو ننھے پھولوں کا مقدر مرجھا جانا ہی ٹھرتا ہے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں گزشتہ چار سال کے دوران مہنگائی میں آنے والی شدت کے باعث خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں 38 فیصد سے تجاوز کرچکی ہے ان حالات میں ایسے کنبوں کی کمی نہیں جہاں ماں باپ کا سہارا بننے کے لئے کمسن بچے دوسروں کے گھروں پرکام کرنے پر مجبور ہیں۔وہ صابر شاہ صابر نے کہا کے نا: بڑوں کی خواہشوں کا بوجھ ہے ننھے سے کندھوں پر ہمارے دور میں بچوں کو اب بچپن نہیں ملتا والدین خود اپنے بچوں کو محض دووقت کی روٹی کی خاطر خود سے دور امیروں کے ہاں چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان کے شہروں میں ہر چوتھے گھر میں ایک نہ ایک کم سن گھریلو ملازم ہے۔ آئی ایل او کے مطابق پاکستان میں 30 لاکھ سے زائد بچے جبری مشقت بشمول گھریلو ملازمتیںکرتے ہیں۔ گلوبل سلیوری انڈیکس ترتیب دینے والے ادارے واک فری فاؤنڈیشن کے مطابق اس وقت پاکستان میں اکیس لاکھ سے زیادہ بچے جبری مشقت پر مجبور ہیں۔ جہاں معصوم جانوں پر ظلم اور تشدد ہوتا ہے یہاں تک کے بڑے شہروں میں گھریلو ملازم فراہم کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں جو پسماندہ علاقوں کے غریب والدین کی مجبوریاں برائے نام پیسوں میں خریدتے ہیں اور ایلیٹ کلاس کو ملازم فراہم کرتے ہیں۔ کچھ کیسز میں تو والدین کو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ان کا لخت جگر کہاں کس حال میں ہے۔ اس کو دو وقت کی روٹی بھی مل رہی ہے یا نہیں۔بعض تو ایسے ہیں جو والدین کو ایڈوانس دے کر ایک مخصوص مدت مقر کرنے کے بعد خاص طور پر بچیوں کو جسم فروشی کے اڈوں پر اورباقی بچوں بچیوں کو ظلم سہنے کے لئے دولت مندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ لاہور پولیس کی ایک رپورٹ کی مطابق 2020ء میں صرف لاہور شہر میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے 30 واقعات رپورٹ ہوئے ، 2019ء میں یہ واقعات 27 تھے، 2018 میں 22 ، 2017 میں 21 جبکہ 2016 میں یہ تعداد 15 ، اسی طرح 2013 میں 8 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق ہرسال اس سنگیں مسئلے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے 87مقدمات درج ہوئے ۔ پولیس مقدما ت تو درج کر لیتی ہے پھر ان کو سزا دلانے کی بجا ئے مبینہ طو ر پرغریب مدعی پر پر یشر ڈال کر صلح نا مہ کیلئے رقم دلاتی اور اس میں اپنی فیس بھی رکھ لیتی ہے۔ اس صورتحال میں آئے روزکمسن ملازمین پر جسمانی تشدد کی خبریں تواترسے میڈیا کی ہیڈ لائنز بنتی ہیں۔ کچھ ماہ قبل لاہور کے پوش علاقے ڈیفنس کے ایک گھر میں فریج سے کھانا لیکر کھانے کی پاداش میں اہل خانہ کے تشدد سے ایک کمسن ملازم ہلاک اور اس کا بھائی زخمی ہوا۔ پولیس نے اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرکے خاتون سمیت دوافراد کو گرفتاربھی کیا۔ اسی طرح کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں گھریلو ملازمین پر مبینہ تشدد سے 13 سالہ لڑکا دم توڑ گیا ۔ یہ تو وہ کیس ہیں جن کا پولیس کے پاس ریکارڈ ہے جبکہ اس سے کہیں زیادہ تعداد غیر رجسٹرڈ کیسز کی ہے جو قانون تک پہنچنے نہیں دیے جاتے یا بیشتر پولیس اہلکار کیس درج کئے بغیر دبائو میں آکر ملزمان کوچھوڑ دیتے ہیں جبکہ عرصہ سے تھانوں میں بند ایسی فائلوں کی بھی کمی نہیں جنھیں بالآخر پیسے لے کر لیکر رفع دفع کر دیاگیا۔ ایسے کیسز کی مثال فروری2021ء کا واقعہ ہے۔ اسلام آباد میں سرکاری افسر نے مبینہ طور پر 12 سالہ گھریلو ملازمہ پر تشدد کر کے اس کی ٹانگ توڑ دی اور خود فرار ہو گیا، اس پر ایف آئی آر کاٹی گئی تو اس نے بچی کا آپریشن تو کروا دیا اور قانوں کی گرفت سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔مجرم قانون کی گرفت سے بچ نکلنے میں اس لئے کامیاب ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں قانون موم کی وہ ناک ہے جس کو طاقتور اپنی خواہش کے مطابق مروڑ لیتا ہے۔دوسری وجہ ہر صوبے میں مختلف قانون اور قانون کی تشریح کا مبہم ہونا ہے۔ مثلاًخیبرپختونخوا کے قوانین کے مطابق کم سے کم عمر جس پرایک بچے کو ملازمت دی جا سکتی ہے وہ 12 سال ہے اور پنجاب میں یہ عمر 15 سال ہے۔ اسی طرح کچھ قوانین کے تحت 14 سال سے زیادہ عمر کے بچے کو کام پر لگایا جا سکتا ہے۔ اب رضوانہ کا معاملہ خاص و عام کا موضوع بحث ہے ،کو مبینہ طور پریک طویل عرصے تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔رضوانہ نے نہ صرف تشدد برداشت کیا رضوانہ کو 16 سال سے کم عمر گھریلو ملازمین کی ملازمت پر پابندی سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کم عمری میں ملازمت دی گئی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے آجر ایک سول جج اور ان کی اہلیہ تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب پہلی مرتبہ رضوانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا تو اس وقت ایک مضبوط ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی اور یہ کہ ملزم کو اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے حفاظتی ضمانت دے دی گئی تھی۔ یہ امر ایک ایسے نظام کی عکاسی کرتا ہے جوکمزور طبقے کا استحصال کرتا ہے۔ پاکستان نے بچوں کے حقوق کے کنونشن پر پاکستان دستخط کئے ہیںہے – جس کا بنیادی مقصد بچوں کوہر قسم کے تشدد کے خلاف تحفظ فراہم کرنا ہے۔ ریاست کو بچوں کے خلاف ہر قسم کی غفلت، بدسلوکی، استحصال اور تشدد کی روک تھام اور ایسے واقعات کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ رضوانہ اور اس کے جیسے دیگر بچے، جو ماضی میں تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں دوبارہ ایسے واقعات کا شکار نہ ہوں تو ریاست کو بچوں کے خلاف تشدد کی روک تھام اور ان کے تحفظ کے لیے ایک قومی حکمت عملی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہوگا اور ایک ایسے عدالتی نظام کا اطلاق کرنا ہوگا جو بچوں کے بہترین مفادات کوملحوظِ خاطر رکھے۔