عمران خان' باد شاہ بندے' ہیں۔ سازش کے موضوع پر ایک اورجلسہ کر ڈالا۔ انکی تقریر کے دوران مخالفین کے بیانات بھی جلسہ گاہ میں لگی بڑی سکرینوں پر دکھائے گئے۔ تقریرکم پریزنٹیشن زیادہ لگتی تھی۔ لگتا ہے فیصل جاویدکی کچھ ذمہ داریاں لمبی چھٹی پر گئے اینکر پرسنز نے اپنے سر لے لی ہیں۔ بہر حال خورشید شاہ کی بات دل کو لگتی ہے کہ تقریروں سے تبدیلی نہیں آئیگی، اس مقصد کے لیے پارلیمان سے رجوع کرنا پڑیگا۔ اگر پنجاب کے ضمنی انتخابات کے نتائج ادھر ادھر ہوگئے تو شاید تبدیلی کا نعرہ ہی دفن ہوجائے۔جہاں تک سازش کی بات ہے تو اسکا مسئلہ ہم پچھلے کالم میں عرض کر چکے ہیں کہ ابھی تک تو اقتدار کانٹوں کی سیج ہے۔ سازش تھی تو کس کے خلاف؟ آئی ایم ایف کو خوش کرلیں ، اپنے اوپر سپر ٹیکس لگالیں، کرپشن اور چوری پر معافی مشکل، یا رفیق!بانی پاکستان نے پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب میں واضح کردیا تھا کہ ملک بنانے کا کام ہوگیا۔ اب اس کی ترقی و تعمیر کا مرحلہ ہے۔ یعنی ایک مرحلے سے نکل کر دوسرے میں داخل ہونا تھا۔ نظریاتی الجھنوں سے نکل کر عملیت پسندی کا راستہ اپنا ناتھا۔انہوں نے شہریت کے آفاقی تصور پر زور دیا تو اس کا مطلب واضح تھا۔ یعنی بلاتخصیص مذہب، رنگ، نسل اور زبان تمام شہری ریاست کی نظروں میں برابر ہیں۔ برابری کا یہ تصور عدل کی اساس ہے۔ جمہوریت اگر بہترین نظام حکومت ہے تو اس کی وجہ مساوات کا تصور ہی ہے۔ مساوات نہیں تو عدل نہیں ، عدل نہیں جمہوریت کیا آمریت بھی ٹْھس ہے۔ بابائے قوم نے صوبائیت پرستی، اقربا پروری اور رشوت کے خاتمے پر بھی زور دیا کہ یہ ناسور ہیں۔ جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر دیتے ہیں۔ یعنی بانی پاکستان ملک میں اصلی اور حقیقی جمہوریت چاہتے تھے اور انہیں اس بارے میں ذرا بھر بھی شک نہیں تھا کہ ملکی آئین کی تشکیل کے لیے جو راہنما اصول انہوں نے بیان کیے تھے، اس پر عمل نہیں کیا جائیگا۔ لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ جمہوریت کے خلاف سازش ان کی زندگی ہی میں شروع ہوگئی تھی۔ ان کے آئین ساز اسمبلی کے خطاب کو اس اخبار تک نے اہمیت نہ دی تھی جنکی بنیاد انہوں نے خود رکھی تھی۔ا نہیں بار بار احساس دلایا گیا کہ بابا جی ، اچھی وکالت کی آپ نے ، یہ ملک بن گیا ہے ، اسے کس طرح چلانا ہے، ہم جانیں ہمارا کام ، آپ زیارت میں آرام کریں۔ ان کے ایما پر تیرہ شاہی ریاستوں نے پاکستان میں شمولیت اختیار کی ۔ خاندانِ غلاماں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور آئی تو معاہدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ان شاہی ریاستوں نے، جو صدیوں کے عمل میں وجود میں آئی تھیں اور رواج پر قائم تھیں، انہوں اپنی خارجہ معاملات، کرنسی اور مواصلات کے شعبے وفاق پاکستان کو سپر د کیے تھے اور اپنے اندرونی معاملات میں آزاد تھیں۔ پارلیمان میں انکی نمائندگی تھی۔ مطلب اسی طرح کے انتظامی یونٹ تھے ، جس طرح کے صوبے۔ قائد اعظم کی آنکھیں بند ہونے کی دیر تھی کہ ان ریاستوں کو حاصل آزادی اور انکے وسائل پر نظریں گڑ گئیں۔ ہمیں دیگر ریاستوں کا علم نہیں لیکن بہاولپور نے ستلج ویلی پراجیکٹ میں اپنا حصہ ڈال کر تین بیراج بنائے اور نہری نظام متعارف کرایا تھا۔ ون یونٹ بنا ،سالانہ چھ کروڑ کا بجٹ تھا ، چھ لاکھ پر آگیا۔ دریا بک گیا، صوبائی حیثیت چھن گئی۔ ون یونٹ ٹوٹا لیکن شاہی ریاستیں صوبوں کے پیٹ میں چلی گئیں۔ اب بہاولپور کے سیاستدان معاہدات کے پلندے اٹھائے پھرتے ہیں، یحیٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر اور اس کی طرز پر ڈھلے تہتر کے آئین میں کی گئی بے انصافی کا رونا روتے ہیں۔ نئے صوبوں کی تحریکیں چلی ہیں تو بہاولپور کی صوبائی حیثت کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بہاول پور والے خود مختاری کی بحالی کی بات کرتے ہیں تو لہور اور اسلام آباد سے پہلے ضلعین اور دمان کے ' سیانے' زبان کاجھنڈا اٹھاکر آجاتے ہیں کہ ایسا مطالبہ ' سرائیکی ' کاز کو نقصان پہنچاتا ہے۔ قوم پرست مظلومیت اور نا اتفاقی کا رونا روتے ہیں، انتخابی سیاست سے دور بھاگتے ہیں، لیکن بہاولپور کا ذکر آجائے تو ان کے ماتھے پر بل اور لہجے میں در آئی تلخی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ کیا آپ ملک بنانے جارہے ہیں کہ قومیت کی بات کر تے ہیں تو جواب آتا ہے کہ چونکہ چار قومی صوبے پہلے سے موجود ہیں تو پانچواں صوبہ بھی قومی ہی بنے گا اور وہ سرائیکستان ہوگا۔ دوسری طرف سرائیکستان کے کا حدود اربعہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ قوم پرستی کا چراغ جلانے والوں کی طرف سے مجوزہ صوبے کا ہر نیا نقشہ' جٹکے ' پنجاب پر ہاتھ صاف کرتا ہے ، ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں پر حق جتا تا ہے، لیکن جنوبی بلوچستان اور شمالی سندھ کے معاملے پر سانپ سونگھ جاتا ہے۔ یوں لسانیت کی لبادے میں چھپی نسل پرستی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ بھئی ، قوم پرستی کرنی ہے تو اس کا حق ادا کرو، 'مضافاتی قوموں' کی حاشیہ برداری کا مطلب ؟ ایک تہذیبی دائرے کو قومیت میں محدود کرنے کا جواز؟ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پیپلز پارٹی نے سرائیکی قوم پرستوں کے سرپر سے ہاتھ اٹھالیا ہے۔ درجن بھر قوم پرست پارٹیاں سارا سال جھمر مارتی ہیں، تعلیمی اداروں میں اپنی دانش پھیلاتی ہیں اور انتخابات کے دنوں میں قومی سطح کی پارٹیوں کی سرپرستی ڈھونڈھتی ہیں۔ پیپلز پارٹی سرائیکستان کے تصور سے تو ہٹ گئی ہے لیکن جنوبی پنجاب پر اڑگئی ہے ، یہاں تک کہ شاہ محمود قریشی کو بھی یہ نعرہ لبھا رہا ہے! ن لیگ پنجاب اسمبلی سے تین صوبوں کی قراردادمنظور کراچکی ہے لیکن دیگر معاملوں پر اتفاق بے شک ہو، پیپلز پارٹی اپنی عزیز از جان حلیف پارٹی کے اس موقف کو مان کے ہی نہیں دے رہی۔ بات ہورہی تھی جمہوریت کی اور چلی گئی جنوبی پنجاب میں لسانی بنیاد پر ہوا دی گئی قوم پرستی کی طرف۔اصل میں ہم یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اشرافیائی جمہوریت کو پنپنے اور زمین میں پنجے گاڑنے کے لیے فرقہ واریت اور لسانیت پرستی کی ڈھال چاہیے۔ یوں بات گھوم پھر کر جمہوریت پر ہی آتی ہے۔ یہ یا تو ہوتی ہے یا پھر نہیں ہوتی۔ قائداعظم کے تصور شہریت، یعنی مساوات کو نہیں مانتے تو جمہوریت کو بھی رہنے دیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اشرافیائی جمہوریت جن بنیادوں پر کھڑی ہے، چند نئے اضلاع اور خود مختاری مقامی حکومتوں کی مار ہے ، سیدھی منہ کے بل آگرے گی۔ یہ کام اتنا مشکل نہیں۔ تونسہ کو ضلع بنانے کی خبریں ہیں، خان پورکو بھی بنادیں اور جس طرح کہ محترم اویس لغاری نے نوید سنائی ہے، اگر مالی اور انتظامی طور پر مقامی حکومتیں بھی بن جائیں تو کیا کہنے۔ طاقت و اختیار ملے گا تو ہی بے چین روحوں کو چین آئے گا۔ ٭٭٭٭